عورت کیا ہے
عورت کا مقام کیا ہے جب عورت پیدا ہوتی ہے اسے کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا نہیں ہے اگلا گھر تمہارا ہے کبھی کبھی میں یہ سوچتی ہوں کے عورت کو مرد کی غلامی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ہر معاملے میں وہ مرد کے لیے قربانی دیتی ہے والدین بہت لاڈ پیار سے اپنی بیٹی کو پالتے ہیں اس کو پڑھا لکھا کہ بڑا کرتے ہیں کامیاب بناتے ہیں تاکہ وہ اپنے اگلی زندگی میں اپنے شوہر کے لیے اچھی بیوی ثابت ہو جب شادی ہوتی ہے تو سسرال والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بہو نہیں نوکرانی لے کے آئے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں فری میں نوکرانی مل گئی ہے اس سے جو کہیں گے وہ کریگی یہاں تک کہ اس کے شوہر کو بھی اس کے خلاف بدزن کر دیتے ہیں کچھ ایسی ہی کہانی اکثر عورتوں کی ہے جن کے دل میں بہت کچھ ہے لیکن وہ کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی اپنا درد نہیں بانٹ سکتی کیونکہ وہ اپنا درد اگر کسی سے کہیں گی تو انہیں پتہ ہے کہ ان کا اپنا گھر خراب ہو جائے گا یہاں تک کہ والدین بھی کردیتے ہیں کہ اب یہ گھر تمہارا نہیں وہی گھر تمہارا ہے آخر عورت کہا جائے
کیا کرے
میرا صرف ایک ہی سوال ہے اس معاشرے سے کہ عورت کا گھر کونسا ہے اصل گھر کونسا ہے کیا ہیں اس کا اپنا گھر ہے جس میں اس نے جانا ہے دنیا میں کوئی گھر اس کے لئے نہیں صرف دو گز زمین ہے وہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ظلم سہتی ہے پر خاموش رہتی ہے چپکے روتی ہے ساری زندگی شوہر کی خدمت کرنے کے باوجود بھی شوہر کہتا ہے کہ تم نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے اور ہمارے اندر ہمارے معاشرے میں بہت سے مر جاتے ہیں جن کو اپنی بیوی کے علاوہ دوسروں کی بیوی اچھی لگتی ہیں دوسروں کی عورتیں اچھی لگتی ہیں اور کسی بھی وقت کہہ دیتا ہے کہ جاؤ نکل جاؤ ہمارے گھر سے والدین بھی کہتے ہیں کہ وہی گھر تمہارا ہے اب ادھر ہی رہنا ہوگا تمہیں یہاں تک کہ اولاد کو خود پیدا کرنے کے باوجود وہ اولاد ماں کی نہیں بلکہ باپ کی کہلاتی ہے ضرورت اپنے بچوں کا اپنے پاس رکھنا چاہے تو کہا جاتا ہے کہ نہیں یہ باپ کے پاس ہی رہیں گے ماں کو اس کا کوئی حق نہیں ہے
اور آجکل ان موبائل فونز کی وجہ سے گھروں میں جھگڑے اور بڑھ گئے ہیں مرد ایک نہیں کئی لڑکیوں سے ایک ہی ٹائم پے بات کرتے ہیں تب انہیں اپنی بیوی بچوں کی پروا نہیں ہوتی موبائل فون کو انہوں نے اپنی زندگی کے حصہ بنا لیا ہے بہت بڑا حصہ بنا لیا ہے جسے وہ نہیں چھوڑ سکتے جتنی اہمیت وہ موبائل کو دیتے ہیں اتنی گھروالوں کو نہیں دیتے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے بس موبائل کا ساتھ ہوتا ہے ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ موبائل واش روم میں بھی لے جائیں اتنا ہی کہوں گی کہ جتنا ہمارا سوشل میڈیا فاسٹ ہوا اتنے ہی گھر میں جھگڑے ہونا شروع ہوگئے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج کو بہت اہمیت دی ان کا ہر طرح سے ساتھ دیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ میں سب سے زیادہ محبت اپنی چھوٹی بیگم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کرتا ہوں بیوی کے کام میں ہاتھ بٹانا کوئی رن مریدی نہیں ہوتی جو ہمارے معاشرے میں ایک بہت ہی گندی گالی ہے بلکہ یہ عورت سے محبت کا ثبوت ہے میں بس معاشرے سے اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کوئی مجھے بتائے گا کہ عورت کا گھر کونسا ہے
0 Comments