✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* ❄✨
*سلسلہ 4:*
🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین اور نیوتہ کا حکم*
❄ *تحفہ کے لین دین کی اِفادیت واہمیت اور اسلامی تعلیمات:*
تحفہ اور ہدیہ کا لین دین اپنی ذات میں ایک جائز بلکہ کئی اعتبار سے ایک بہت ہی مفید عمل ہے، یہ معاشرے کا اہم جُز ہے، اس کے متعدد فوائد ہیں: اس سے محبتیں پیدا ہوتی ہیں، باہمی نفرتیں اور رنجشیں ختم ہوتی ہیں، تعلقات اور رشتوں میں استحکام اور پائیداری آتی ہے بلکہ یہ مضبوط اور
خوشگوار تعلق کی علامت ہوا کرتا ہے۔
دینِ اسلام نے بھی باہمی ہدیے اور تحفے کے لین دین کو اہمیت دی ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے، البتہ دین اسلام نے ہدیہ اور تحفہ کے لین دین سے متعلق ہدایات اور تعلیمات بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ *’’ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے باہمی محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘* جیسا کہ السنن الکبریٰ بیہقی میں ہے:
12297- عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «تَهَادَوْا تَحَابُّوا».
اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس کے بدلے میں ہدیہ بھی عنایت فرماتے تھے:
2585- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا.
اسلام نے تحفے اور ہدیے کے لین دین سے متعلق سنہری تعلیمات اسی لیے بیان فرمائی ہیں کہ اگر اس کو حدود اور احکام کا پابند نہ بنایا جائے تو زندگی کا یہ مفید عمل متعدد خرابیوں کا باعث بن کر اپنی اِفادیت اور اہمیت کھو بیٹھتا ہے، گویا کہ تحفے اور ہدیے سے متعلق دینی تعلیمات در حقیقت اس کی اہمیت اور افادیت برقرار رکھنے کے لیے ہیں، کیوں کہ دورِ حاضر میں یہ ایک ایسی بے جان رسم بنتی جارہی ہے جس سے متعدد خرابیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔
🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین سے متعلق دینی تعلیمات اور حدود:*
واضح رہے کہ شادی بیاہ میں تحفہ اور ہدیہ کا لین دین اپنی ذات میں جائز اور ایک مفید عمل ہے، البتہ اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے تاکہ دینی تعلیمات کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے:
1⃣ تحفہ کا لین دین خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور باہمی محبت وتعلق کی پاسداری کے طور پر ہونا چاہیے کیوں کہ جب تحفہ خلوصِ نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے دیا جائے تو وہ محبتوں کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے متعدد فوائد سامنے آتے ہیں۔ اس لیے تحفہ دیتے وقت بدلہ ملنے کی نیت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ دوسرے کو تحفہ اس وقت دینا ہے جب وہ بھی دے گا کیوں کہ یہ دونوں مذموم اور قابلِ اصلاح نیتیں ہیں۔
2⃣ اگر کوئی شخص ایسا تحفہ اس لیے دیتا ہے کہ میری خوشی کے موقع پر مجھے بھی ملنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ اس میں قرض کا معنی آجاتا ہے جس کی وجہ سے معاملہ کوئی اور رخ اختیار کرلیتا ہے جبکہ یہ معاملہ اصولی طور پر تحفے کا تھا، تو قرض کی صورت میں پھر قرض کے احکام کی رعایت لازم ہوگی، جس میں کمی بیشی سے سود کا اندیشہ ہوتا ہے کیوں کہ تحفہ دے کر زیادہ قیمتی تحفے یا اضافی رقم کا مطالبہ سود کے زمرے میں آئے گا جس کا ناجائز ہونا واضح ہے۔ اس لیے اگر واقعی قرض ہی دینا ہے تو پھر معاملہ صاف ہونا چاہیے اور پھر قرض کے احکامات کی پاسداری ہونی چاہیے۔
🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین کی مروّجہ خرابیاں:*
ماقبل کی تفصیل کی رو سے شادی بیاہ میں بھی تحفے کے طور پر رقم کا لین دین جائز بلکہ کئی اعتبار سے بہترین عمل قرار پاتا ہے جس کی تفصیل بیان ہوچکی، لیکن اس معاملے میں مذکورہ بالا شرعی تعلیمات نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایک افسوس ناک صورتحال سامنے آئی ہے کہ:
☀️ بہت سے لوگ شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین محض ریاکاری اور دکھلاوے کے طور پر کرتے ہیں، جس سے مقصود نام ونمود ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ریاکاری ایک سنگین گناہ ہے۔
☀️ بہت سے لوگ تحفے کا لین دین نہ چاہتے ہوئے بھی محض رسم پوری کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی ملامت سے بچا جاسکے، ظاہر ہے کہ دینی تعلیمات کی رو سے یہ طرزِ عمل مفید نہیں بلکہ حوصلہ شکنی اور اصلاح کے قابل ہے۔
☀️ بہت سے علاقوں میں شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین بدلے کے طور پر ہونے لگا ہے کہ اس بنیاد پر تحفہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہماری شادی کے موقع پر ہمیں بھی تحفہ دے گا، بلکہ بعض جگہ تو باقاعدہ تحفہ دینے والوں کے نام اور رقم تک لکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی شادی کے موقع پر یہ بدلہ چکایا جاسکے، اور جس نے تحفے میں رقم نہیں دی تو اس کو بھی بدلے میں تحفہ نہیں دیا جاتا۔
☀️ بعض قوموں میں شادی کے موقع پر تحفہ تحائف دینا ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شادی کے موقع پر تحفہ نہ دے تو اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس کو ملامت کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہےبلکہ بسا اوقات تو تعلق بھی ختم کردیا جاتا ہے۔
بعض جگہ نیوتہ کے نام سے یہ رواج ہے کہ شادی بیاہ میں تحفے کے طور پر جو رقم دی جاتی ہے تو اپنی شادی کے موقع پر اس سے زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور یہ مطالبہ پورا نہ کرنے والوں سے گلے شکوے کیے جاتے ہیں اور انھیں ملامت کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ تحفے کے معاملے کو قرض کے معاملے میں تبدیل کردیتا ہے اور قرض میں اضافے کا مطالبہ سود ہے۔
ایسی تمام تر باتیں دینی تعلیمات اور مزاج کے سراسر خلاف ہیں، اسلام ہمدردی، خلوص اور باہمی تعاون کا درس دیتا ہے، اور انھی خرابیوں کا نتیجہ ہے کہ یہ اہم اور مفید عمل معاشرے میں ایک بوجھ اور بے جان رسم بن کر رہ گیا ہے جس سے محبتوں کی بجائے نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔
🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین کی موجودہ صورتحال اور نیوتہ کی رسم کا حکم:*
ماقبل کی تفصیل سے یہ صحیح مسئلہ واضح ہوجاتا ہے کہ شرعی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے اپنی ذات میں یہ جائز ہے لیکن آجکل معاشرے میں شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کے لین دین میں متعدد خرابیاں آچکی ہیں اور لوگ مذکورہ بالا دینی تعلیمات کی رعایت بھی نہیں کرتے بلکہ نیوتہ کے نام سے باقاعدہ ایک غیر شرعی رسم جاری ہے، اس لیے موجودہ صورتحال میں ان خرابیوں کی اصلاح کیے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لیےاس رسم سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اس سے متعلق استاد محترم حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دام ظلہم کی مستند ترین ترجمہ وتفسیر ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
آسان ترجمۂ قرآن سورۃ الروم آیت 39:
وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ۔
▪ *ترجمہ:*
اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ارادے سے دیتے ہو، تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو (اپنے مال کو) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں۔
☀️ *تفسیر:*
واضح رہے کہ اس آیت میں ربا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مشہور معنی سود کے ہیں، لیکن اس کے ایک معنی اور ہیں اور وہ یہ کہ کوئی شخص اس نیت سے کسی کو کوئی تحفہ دے کہ وہ اس کو اس سے زیادہ قیمتی تحفہ دے گا، مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر نیوتہ کی جو رسم ہوتی ہے اس کا یہی مقصد ہوتا ہے، چنانچہ بہت سے مفسرین نے یہاں ربا کے یہی معنی مراد لیے ہیں، اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں نیوتہ کی رسم کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس قسم کا تحفہ جس کا مقصد قیمتی تحفہ حاصل کرنا ہو اس کو سورة مدثر (آیت نمبر : 6) میں بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین شرعی احکام وحدود کے تحت لانے کی اشد ضرورت ہے، بصورتِ دیگر اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔
🌻 *فائدہ برائے اہلِ علم:*
ماقبل میں ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ کی تفسیر میں جن دو آیات (یعنی سورۃ الروم آیت: 36 اور سورۃ المدثر آیت: 6) کا ذکر ہوا ان کی روشنی میں نیوتہ کی ممانعت سامنے آتی ہے اور تفاسیر میں بھی ان مقامات کی تفسیر میں اس کا ذکر ملتا ہے حتی کہ متعدد حضرات صحابہ کرام وتابعین عظام سے منقول تفسیر میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
☀️ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
▫️395- مَنْ كَرِهَ أنْ يُعْطي الشَّيء وَيَأخُذ أَكْثَرَ مِنْهُ:
▫️23111- حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ لِتَزْدَادَ.
▫️ 23112- حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: حدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عِكْرِمَةَ يَقُولُ: لَا تُعْطِ الْعَطِيَّةَ فَتُرِيدُ أَنْ تَأْخُذَ أَكْثَرَ مِنْهَا.
▫️ 23113- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ لِتُعْطَى أَكْثَرَ مِنْهُ.
▫️ 23116- حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ نَافِعِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِي قَوْلِهِ: «وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِي شَيْئًا تَطْلُب أَكْثَرَ مِنْهُ.
▫️ 23117- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: الرَّجُلُ يُعْطِي لِيُثَابَ عَلَيْهِ: «وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوَا عِنْدَ اللهِ».
▫️ 23118- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الْهَدَايَا.
▫️ 23119- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُعْطِي قَرَابَتَهُ لَيَكْثُرَ بِذَلِكَ مَالَهُ.
9
0 Comments