ماہِ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد ماہِ شوال میں چھ نفلی روزے رکھنے کی بڑی فضیلت احادیث میں وارد ہے، احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ *حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت:*
صحیح مسلم، جامع الترمذی، سنن ابی داود، سنن کبریٰ بیہقی، سنن صغریٰ بیہقی، مسند ابی عوانہ، مسند احمد،صحیح ابن خزیمہ، شعب الایمان اور دیگر کتبِ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھےتو یہ (اجر وثواب میں) ہمیشہ (یعنی سال بھر) کے روزوں کے برابر ہے۔
2114- حدثنا أحمد بن عبدة: حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد الداروردي عن صفوان بن سليمان وسعد بن سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله ﷺ: «من صام رمضان ثم أتبعه ستة أيام من شوال فكأنما صام الدهر».
☀ مسند ابی عوانہ میں ہے:
2696- حدثنا الصاغاني وأبو أمية قالا: حدثنا محاضر بن المورع: حدثنا سعد ابن سعيد قال: أخبرني عمر بن ثابت الأنصاري سمعت أبا أيوب رضي الله عنه يقول: سمعت رسول الله ﷺ يقول: «من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال فذاك صيام الدهر».
3456- أخبرنا أبو عبد الله الحافظ وعبد الله بن يوسف الأصبهاني قالا: أخبرنا الأصم: أخبرنا محمد بن إسحاق الصنعاني: أخبرنا محاضر بن المورع:أخبرنا سعد بن سعيد الأنصاري: أخبرني عمر بن ثابت الأنصاري قال: سمعت أبا أيوب الأنصاري يقول: سمعت رسول الله ﷺ يقول: «من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال فذاك صيام الدهر».
🌹 *فائدہ:*
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت مصنَّف عبد الرزاق میں بھی ہے البتہ الفاظ کا معمولی فرق ہے جس سے حدیث کا مطلب بھی مزید واضح ہوجاتا ہے:
7918- عبد الرزاق عن داود بن قيس عن سعد بن سعيد بن قيس أخو يحيى بن سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب الأنصاري: قال رسول الله ﷺ: «من صام شهر رمضان وأتبعه ستا من شوال كتب له صيام السنة» يقول: لكل يوم عشرة أيام. وبه نأخذ.
3635- أخبرنا الحسين بن إدريس الأنصاري: حدثنا هشام بن عمار: حدثنا الوليد بن مسلم: حدثنا يحيى بن الحارث الذماري عن أبي أسماء الرحبي عن ثوبان مولى رسول الله ﷺ عن رسول الله ﷺ قال: «من صام رمضان وستا من شوال فقد صام السنة».
☀ صحیح ابن خزیمہ میں ہے:
2115- حدثنا سعيد بن عبد الله بن عبد الحكم والحسين بن نصر بن المبارك المصريان قالا: حدثنا يحيى بن حسان: حدثنا يحيى بن حمزة عن يحيى بن الحارث الذماري عن أبي أسماء الرحبي عن ثوبان: أن رسول الله ﷺ قال: «صيام رمضان بعشرة أشهر، وصيام الستة أيام بشهرين، فذلك صيام السنة» يعني رمضان وستة أيام بعده.
📿 *ماہِ شوال کے چھ روزے سال بھر کے روزوں کے برابر ہونے کا مطلب:*
ماہِ رمضان کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھنے سے سال بھر کے روزوں کا اجر وثواب یوں نصیب ہوتا ہے کہ قرآن کریم سورۃ الانعام آیت: مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ أَمْثَالِهَاۖ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ (160) کی رو سے ایک نیکی پر دس گنا اجر وثواب عطا ہوتا ہے، اس حساب سے 30+6 = 36 روزوں کا اجر 360 روزوں کے برابر بن جاتا ہے، یوں سال بھر کے روزوں کا اجر میسر آجاتا ہے جیسا کہ ماقبل میں مذکور بعض روایات سے یہی مضمون ثابت ہے۔
📿 *شوال کے چھ روزوں کی فضیلت میں روایات میں موجود ’’الدَّھر‘‘ اور ’’السَّنۃ‘‘ کے الفاظ کی تطبیق:*
بعض روایات میں شوال کے ان چھ روزوں کی فضیلت میں الدَّھر کا لفظ آتا ہے جس سے ہمیشہ اور ساری عمر کے روزوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جبکہ بعض روایات میں السَّنۃ کا لفظ آتا ہے جس سے سال بھر کے روزوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، ان دونوں الفاظ کی تطبیق ایک تو یوں ہوسکتی ہے کہ السَّنۃ یعنی سال کو بنیاد اور اصل قرار دے کر الدَّھر سے بھی سال ہی مراد لیا جائے جیسا کہ الدھر کا ایک مصداق یہ بھی ہے اور روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ دوسری تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ اگر الدھر کو اپنے حال پر رکھا جائے اور اس سے ہمیشہ کی فضیلت مراد لی جائے تب بھی کوئی شبہ نہیں کیوں کہ جو شخص ہر سال رمضان کے روزوں کے ساتھ شوال کے ان چھ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرتا رہے تو اس کو ہر سال سال بھر کے روزوں کا اجر ملے گا تو اس طرح اس کو ساری عمر ہمیشہ کے لیے روزے کا اجر میسر آسکے گا۔
📿 *ماہِ شوال کے چھ روزوں سے متعلق ایک شبہ اور غلط فہمی کا ازالہ:*
ماقبل میں مذکور روایات سمیت دیگر متعدد روایات سے ماہِ شوال کے ان چھ نفلی روزوں کی فضیلت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ یہی مذہب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین، فقہائے احناف اور حضرات اکابر رحمہم اللہ کا ہے۔ اس لیے ان روزوں کے ثبوت اور فضیلت میں کسی قسم کی کوئی غلط فہمی اور شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
بعض کتب میں جو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر بعض ائمہ کرام کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان کو مکروہ قرار دیا گیا ہے تو محققین حضرات کے نزدیک اوّل تو ان ائمہ کرام کی طرف ان روزوں کو مکروہ قرار دینے کی نسبت درست ہی نہیں، دوم یہ کہ اگر اس نسبت کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تب بطورِ تاویل اس کا مطلب یہ بیان کیا جائے گا کہ ان ائمہ کرام کے نزدیک یہ کراہت مطلق نہیں بلکہ کراہت اس صورت میں ہے جب ان چھ روزوں کو لازم سمجھا جائے اور ان کو فرض و واجب کا درجہ دیا جائے کہ لوگ ان روزوں کے ترک کرنے پر ملامت کرنے لگیں، یا یہ کہ عید کے دن ہی سے یہ روزے شروع کیے جائیں، یا یہ کہ ان روزوں کے بعد عید جیسی تقریب منائی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کراہت مخصوص صورتوں میں ہے جبکہ عام حالات میں یہ روزے مستحب ہی ہیں، یہی قول راجح اور مفتیٰ بہ ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: رد المحتار مع الدر المختار، ہندیہ، مراقی الفلاح، معارف السنن، اعلاء السنن، شرح النقایہ، بدائع الصنائع، مجمع الانہر، فتاویٰ دار العلوم دیوبند، بہشتی زیور، فتاویٰ رحیمیہ، فتاویٰ بیِّنات ودیگر کتب۔
▪ ماہِ شوال کے ان چھ روزوں کے استحباب کو ثابت کرنے سے متعلق حضرت امام قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ نے ایک بہترین رسالہ بنام *"تحریرُ الاَقوال فی صَومِ الستّ من شوال"* تحریر فرمایا ہے جو کہ انصاف پسند افراد کے لیے نہایت ہی تشفی کا باعث ہے جس میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے نزدیک بھی یہ روزے مستحب ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ ان تمام اقوال کی تردید یا تاویل کی گئی ہے جن سے ان روزوں کا مکروہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔
▪ *فقہی عبارات*
ذیل میں دلی اطمینان کے لیے چند فقہی عبارات ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن سے ماہِ شوال کے ان چھ روزوں کی فضیلت بھی واضح ہوجاتی ہے اور ائمہ حنفیہ کے مذہب سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ بھی ہوجاتا ہے۔
والاتباع الْمَكْرُوهُ هو أَنْ يَصُومَ يوم الْفِطْرِ وَيَصُومَ بَعْدَهُ خَمْسَةَ أَيَّامٍ، فَأَمَّا إذَا أَفْطَرَ يوم الْعِيدِ ثُمَّ صَامَ بَعْدَهُ سِتَّةَ أَيَّامٍ فَلَيْسَ بِمَكْرُوهٍ، بَلْ هو مُسْتَحَبٌّ وَسُنَّةٌ.
📿 *امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب سے متعلق تنبیہ:*
جہاں تک حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی طرف ان چھ روزوں کی کراہت کی نسبت کا تعلق ہے تو وہ بھی علی الاطلاق درست نہیں جیسا کہ مشہور مالکی امام وفقیہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کراہت کی تاویل فرمائی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
📿 *ماہِ شوال کے چھ نفلی روزوں کے مستحب ہونے پر ائمہ کرام کا اتفاق ہے:*
شیخ دکتور وہبہ زحیلی رحمہ اللہ نے الفقہ الاسلامی وادلتہ میں شوّال کے چھ نفلی روزوں پر ائمہ کرام کا اتفاق ذکر فرمایا ہے:
النوع الرابع صوم التطوع أو الصوم المندوب: .... وأيام صوم التطوع بالاتفاق ما يلي: ....
4۔ صوم ستة أيام من شوال ولو متفرقة، ولكن تتابعها أفضل عقب العيد مبادرة إلى العبادة، ويحصل له ثوابها ولو صام قضاء أو نذرًا أو غير ذلك، فمن صامها بعد أن صام رمضان، فكأنما صام الدهر فرضًا؛ لما روى أبو أيوب: «من صام رمضان، ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاك صيام الدهر»، وروى ثوبان: «صيام شهر بعشرة أشهر، وصيام ستة أيام بشهرين، فذلك سنة» يعني أن الحسنة بعشر أمثالها، الشهر بعشرة أشهر، والستة بستين، فذلك سنة كاملة.
▪ ان متعدد صحیح احادیث مبارکہ اور ائمہ کرام وفقہائے عظام کی تصریحات کے بعد ماہِ شوال کے چھ روزوں کے استحباب اور ثبوت کا انکار ایک بے بنیاد اور کھوکھلا دعویٰ ہے۔
📿 *ماہِ شوال کے روزوں کو لازم سمجھنے سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:*
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چوں کہ لوگ ماہِ شوال کے ان چھ روزوں کو لازم سمجھتے ہیں اس لیے یہ مکروہ اور بدعت ہیں، اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
1⃣ ماہِ شوال کے ان چھ روزوں کو لازم سمجھنا اور انھیں ترک کرنے پر ملامت کرنا شرعی اعتبار سے ہرگز درست نہیں، کیوں کہ یہ روزے مستحب ہیں اور مستحب کو اپنے شرعی مقام ومرتبے سے آگے بڑھاتے ہوئے اس کو لازم سمجھنا اور اسے ترک کرنے پر ملامت کرنا دین میں زیادتی ہے جو کہ ناجائز ہے۔ اس لیے جہاں ایسی سوچ پائی جاتی ہو وہاں اس غلط سوچ کی اصلاح ضروری ہے۔
2⃣ ماقبل کی تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں جہاں ان روزوں کو لازم سمجھا جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں ان روزوں ہی کو مکروہ اور بدعت قرار دینے کی بجائے اس غلط اور غیر شرعی سوچ کی اصلاح کی جائے تو یہ زیادہ مناسب اور بہتر ہے کیوں کہ یہ روزے تو احادیث سے ثابت ہیں، اس لیے ان کی ترغیب دینی چاہیے جیسا کہ احادیث کا بھی تقاضا ہے اور کسی عمل کے مستحب ہونے کا بھی تقاضا ہے، جبکہ ان مستحب روزوں کو لازم سمجھنے کی سوچ غلط اور غیر شرعی ہے جو کہ ایک خارجی معاملہ ہے، اس لیے کہ جہاں یہ غلط سوچ نہ ہو تو وہاں ان روزوں کو مستحب ہی قرار دیا جائے گا کیوں کہ یہ روزے اصلًا بدعت نہیں ہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہیں، اس لیے ان روزوں سے متعلق غلط سوچ کی اصلاح ہونی چاہیے، نہ کہ روزوں ہی کو مکروہ اور بدعت قرار دے دیا جائے، کیوں کہ موجودہ حالات میں اگر اس طرح کی غلط اور غیر شرعی سوچ کی اصلاح کرنے کی بجائے مستحب اعمال ہی کو مکروہ اور بدعت قرار دینے کی روش اختیار کی جائے تو اس کی زد میں تقریبًا تمام معروف مستحب اعمال آئیں گے اور سبھی کو مکروہ اور بدعت قرار دینا پڑے گا، اور یہ تو ظاہر ہے ہی کہ جس روش کا انجام ہی نامناسب ہو تو وہ روش ہی نامناسب قرار پاتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
3⃣ واضح رہے کہ یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ لوگ ان روزوں کو لازم سمجھتے ہیں، کیوں اوّل تو بہت سے لوگ یہ روزے رکھتے ہی نہیں، دوم یہ کہ بڑی تعداد ایسی ہے جو ان روزوں کو مستحب ہی سمجھتی ہے، سوم یہ کہ اس امکان اور احتمال کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض لوگ ان روزوں کو لازم بھی سمجھتے ہوں گے لیکن یہ معاملہ تو تقریبًا ہر اس مستحب عمل کے ساتھ ہے جس کا عوام میں رجحان زیادہ ہے، لیکن کیا اس کی وجہ سے ان تمام مستحب اعمال کو مکروہ یا بدعت قرار دیا جاسکے گا؟ اس لیے محض لازم سمجھنے کے اندازے اور گمان کی وجہ سے احادیث سے ثابت شدہ نفلی روزوں کو مکروہ یا بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
📿 *ماہِ شوال کے چھ روزوں سے متعلق چند اہم مسائل:*
1⃣ یہ چھ نفلی روزے ماہِ شوال کے پورے مہینے میں رکھے جاسکتے ہیں، البتہ چوں کہ یکم شوال یعنی عید الفطر کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں اس لیے ان چھ نفلی روزوں کا آغاز عید الفطر کے دوسرے دن سے کیا جاسکے گا۔
2⃣ ماہِ شوال کے یہ چھ روزے ایک ہی ساتھ لگاتار رکھنے ضروری نہیں بلکہ درمیان میں وقفہ کرکے الگ الگ رکھنا بھی درست ہے۔ (رد المحتار)
❄ *فائدہ:*
ماہِ شوال کے یہ چھ روزے چوں کہ نفلی روزے ہیں اس لیے اسی مناسبت سے اگلی قسط میں نفلی روزوں کے بنیادی احکام ذکر کیے جائیں گے، اور اسی میں ماہِ شوال کے روزوں سے متعلق مزید مسائل بھی واضح ہوسکیں گےان شاء اللہ، تاکہ روزے رکھنے والوں کے لیے سہولت رہے۔
0 Comments