#آہ_تم_کیا_ھو_میرےملک_کے_مسیحاؤ۔۔۔۔۔۔
رات کا وقت ھے ایمرجنسی میں مرد کے رونے کی آوازیں ہیں
یا اللہ خیر! مرد بھی روتے کیا یقیناً کوئی بڑا مسئلہ ھے کہ مرد کا صبر بھی جواب دے گیا ھے
ھمارے دوست کو الٹیوں اور ڈائریا کی شکائیت تھی ھم بھی ایمرجنسی یہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خانیوال اپنے دوست کے ساتھ تھے
رونے کی آواز کے تعاقب میں ھم بھی اس جانب چل پڑے دیکھا تو ایک جوان آدمی ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ باندھ کر مسلسل روئے جارہا ھے اور اس کی آواز میں ہچکی ھے اور اس کے لبوں پر ایک ہی آواز ھے
"سر میں اس وقت کہاں سے لاؤں، سر میں اس وقت کہاں سے لاؤں"
ھم سمجھے شائید ڈاکٹر اس سادہ لوح انسان سے پیسے مانگ رہے اور ھمارے دل میں بہت سی گالیاں بھی نکلیں
جوانی کا خون ھمارے سروں پر چڑھ کر ٹھاٹھیں مار رہا تھا
ھم نے کہا چلو آج ان قصائیوں کو سبق سکھاتے ہیں
اسی اثناء میں ڈاکٹر نے اس رونے والے مرد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما اور کسی اور دفتر کی طرف چلنے لگے ھم بھی کھوج میں ان کی پیچھے پیچھے
ڈاکٹر اس جوان کو باہر بٹھایا اور خود اندر چلا گیا اور اندر سے پانی بھجوایا جو ایک ملازم نے اس سادہ لوح جوان کو پلایا
اب اس جوان کے آنسو رک چکے تھے اور وہ دیوار کی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
ھم اس کے قریب پہنچے اور سلام کیا اور اس کے پاس بیٹھ گئے
اور سلام دعاء کے بعد اس سے سارا ماجرا پوچھا کہ کیا ھوا ڈاکٹرز کتنے پیسے مانگ رہے علاج نہی کررہے ہمیں بتاؤ ان کو سیدھا کرتے بندے بلواتے روڈ بلاک کرتے ڈنڈے لاتے یہ تو ھمارے ملازم ھماری زبان چلتی گئی ایک دم سے اس سادہ لوح جوان نے ھمیں ٹوکا
صاحب کیسی باتیں کرتے ھو
"میری بیوی حمل سے ھے ھم علاقے کی دائی سے مسلسل معائنہ کراتے رہے ہیں، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اچانک رات کو دردیں شروع ھوئیں ھمیں سمجھ نا آئی اب کیا کریں
تمام محلے والوں نے مشورہ دیا اس کو فوری خانیوال لے جائیں سرکاری ہسپتال جیسے تیسے کرکے میں لے آیا
یہاں فوری ابتدائی معائنہ کرنے الٹراساؤنڈ اور خون کے ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے زچہ و بچہ کو بچانے کےلئے ابھی آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا ھے اور فوری طور پر خون کا انتظام کرنے کا کہا ھے
رات کے اس وقت تین بج رہے میرے لئے یہ شہر اجنبی سا ھے میں کہاں سے خون کا انتظام کروں اور اوپر سے میری بیوی اور اس کے پیٹ کے اندر بچے کی جان کو خطرہ ھے اپنی بے بسی پر رونا رو رہا تھا کہ یہ فرشتہ صفت ڈاکٹر جس کو ڈاکٹر سرفراز کے نام سے پکار رہے تھے آگئے میرے پاس میری تحمل سے بات سنی اور اپنے ساتھ یہاں لے آئے کہ آؤ کچھ کرتے صبر اور حوصلہ سے کام لیں
اب ڈاکٹر صاحب اندر میں ان کا باہر انتظار کررہا"
اس نوجوان کی باتیں سن کر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اندر دیکھا کمرے کے
منظر دیکھ کر میرے جسم سے پسینہ چھوٹ گیا اور ندامت سے میں باہر آکر چپ کرکے بیٹھ گیا
میرے دوستوں نے یہ حالت میری دیکھی تو وہ بھی تجسس سے دروازے سے کھڑے ہوکر اندر دیکھنے لگے اور اس دوران تصویر بنا لیں ان منظر کی اور واپس ھم انتظار گاہ میں بیٹھ کر اس دروازے پر نگاہ جمائی ھوئی جہاں سے ڈاکٹر نے نکلنا کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر کے ہاتھ میں خون کی بوتل
اور وہ اس جوان کو پکڑا رہے تھے
اب روتے ھوئے شخص کے چہرے پر سکون اور تسلی تھی وہ خون کی بوتل لیکر اپنی بیگم کے پاس جارہا تھا
دوست کو ڈرپ لگی تھی اس دوران وہ سوگیا تھا ھم نے بھی سوچا اب صبح کی آزانوں کے بعد ھی جائیں گے ھم بھی کبھی چہل قدمی اور کبھی انتظار گاہ بیٹھ کر وقت گزارنے لگ گئے صبح کے انتظار میں
کچھ وقت کے بعد دوبارہ ھماری نظر اس جوان پر پڑی جو اب فیڈر اور دودھ کے ساتھ ھمیں نظر آیا ھم نے اسے آواز دی وہ رک گیا
"کیا بنا آپ کی بیگم اور بچے کا؟ " ھمارا پہلا سوال یہی ھمارے منہ سے نکلا
مسکراتے ھوئے کہا
"اللہ پاک نے اپنی نعمت سے نوازا ھے الحمدالله ماں اور بیٹی دونوں ٹھیک ہیں"
ھم نے بھی رب کا شکر ادا کیا
دل میں ندامت بھی
ھم نے اس بچی کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جس کےلئے رات کے اس وقت بغیر نام شجرہ مزہب زات پات کے پوچھے ڈاکٹر نے فوری خون دیا
وہ نوجوان ہمیں اپنی مولود بیٹی سے ملوانے لے گیا ھم نے اس معصوم کی جو اس وقت نئی نئی دنیا میں آئی تھی تصویر بنائی اور تمام دوستوں نے اپنی طرف سے مل کر کچھ پیسے جمع کئے جو اس سادہ لوح انسان کی جیب میں بڑی مشکل سے اس بات پر ڈالنے میں کامیاب ھوئے کہ یہ چھوٹی کے پیدائش کی مٹھائی ھے
دوبارہ ھم دبے پاؤں ایمرجنسی آئے دوست کوجگایا ڈرپ ختم ھوچکی تھی طبیعت میں بہتری تھی ڈاکٹر سے گھر کےلئے ادویات تجویز کرائیں
اور باہر آکر دوست سے ساری کہانی شئیر کی
اس نے ھمیں پہلے ڈانٹا کہ کسی کےلئے بدگمانی نہی رکھتے تم لوگ جب باہر اس ماجرے میں مصروف تھے بار بار ایمرجنسی ڈاکٹر مجھ سے تب تک پوچھتا رہا کیسی طبیعت اب جب تک مجھے نیند نہی آگئی
باہر نکل کر مسجد میں ھم نے دو رکعت نوافل ادا کئے اللہ کے حضور معافی مانگی
میری تمام دوستوں اور پاکستان کی عوام سے گزارش ھے
ہفتے میں، مہینے میں یا سال میں ایک دن رضاکارانہ طور پر نکال کر ہسپتالوں میں وقف کریں
وہاں کے حالات کو سمجھیں ھم بہت سی بدگمانیوں سے بچ جائیں گے۔۔۔
کیونکہ جب ھمارا کوئی اپنا بیمار ھو اور اس کی بہتری کےلئے برنولا یا خون کے نمونے لئے جارہے ھوں تو جانے یا انجانے میں سامنے والے ڈاکٹرز و ہسپتال کا عملہ ھمیں قصائی لگتا اور بدگمانیوں کا سمندر ھمارے دل میں شروع
حالانکہ بعد میں احساس ھوتا کہ اگر یہ نا ھوتے تو پھر علاج کیسے ممکن ھوتا
(محمد عمر اعوان کی وال سے)
0 Comments