🌻 *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* 🌻✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی ا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معزز احباب!
دینی تعلیمات سے متعلق عوام میں رائج غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی اور اصلاح کے لیے ایک اہم اور مفید سلسلہ شروع کیا جارہا ہے، جس کا آغاز آج 22 شعبان 1441ھ بمطابق 16 اپریل 2020بروز جمعرات سے ہو رہا ہے ان شاء اللہ۔
اس مفید سلسلے کے مقاصد یہ ہیں:1⃣
دینی عقائد، مسائل اور اخلاق سے متعلق غلطیوں کا ازالہ۔
2⃣ غیر معتبر اور منگھڑت احادیث اور روایات کی نشاندہی اور تحقیق۔
3⃣ بدعات ورسومات کی نشاندہی اور تردید۔
4⃣ مستند دینی تعلیمات سے آگاہی۔
خود بھی استفادہ کیجیے اور دوسروں تک بھی پہنچائیے!
زیر نگرانی:
مفتی مبین الرحمٰن صاحب
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
متخصص جامعہ اسلامیہ طیبہ کراچی
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* ❄✨
*سلسلہ 1:*
🌻 *غسل کے بعد وضو کرنے سے متعلق غلط فہمی کا اِزالہ:*
بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ غسل کے بعد بھی وضو کرنا چاہیے، اور وہ لاعلمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ غسل کرنے سے وضو نہیں ہوتا یا کم از کم مکمل نہیں ہوتا، اس لیے وہ غسل کے بعد بھی وضو کرتے ہیں اور اس حوالے سے طرح طرح کے وسوسوں اور شک میں مبتلا رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض غلط فہمی ہے جس کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں۔ غسل کے بعد وضو کرنے سے متعلق درست مسئلہ درج ذیل ہے:
🌻 *غسل کے بعد وضو کرنے کا حکم:*
غسل سے پہلے وضو کرنا تو سنت ہے البتہ غسل کے بعد وضو کرنے کا حکم نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے، چاہے اس نے غسل سے پہلے وضو کیا ہو یا نہ کیا ہو کیوں کہ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب غسل سے وضو کے اعضا بھی دھل جاتے ہیں تو غسل کرنے سے وضو بھی ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں مطمئن رہتے ہوئے کسی بھی شک اور غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
سنن الترمذی میں ایک واضح حدیث ہے جس سے اس معاملے میں راہنمائی ملتی ہے کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ *حضور اقدس ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔*
یہ حدیث نقل کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ اور تابعین کا بھی یہی مذہب ہے کہ غسل کے بعد وضو نہیں کرنا چاہیے۔
☀️ سنن الترمذی میں ہے:
107 - عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لَا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الغُسْلِ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ: أَنْ لَا يَتَوَضَّأَ بَعْدَ الغُسْلِ.
(بَابٌ فِي الوُضُوءِ بَعْدَ الغُسْلِ)
☀️ اسی مضمون کی حدیث سنن ابی داود میں بھی ہے:
250 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَغْتَسِلُ وَيُصَلِّى الرَّكْعَتَيْنِ وَصَلَاةَ الْغَدَاةِ، وَلَا أُرَاهُ يُحْدِثُ وُضُوءًا بَعْدَ الْغُسْلِ.
(باب فِى الْوُضُوءِ بَعْدَ الْغُسْلِ)
☀️ حدیث کی مشہور کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں غسل کے بعد وضو نہ کرنے سے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت جابر بن زید اور حضرت حذیفہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اور امام علقمہ، امام سعید بن جُبیر، امام ابراہیم نخعی، امام عبد الرحمٰن بن یزید اور امام عکرمہ جیسے تابعین عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی مذہب نقل کیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
▫️748- حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سُئِلَ عَنِ الْوُضُوءِ بَعْدَ الْغُسْلِ؟ فَقَالَ: وَأَيُّ وُضُوءٍ أَعَمُّ مِنَ الْغُسْلِ؟!
▫️749- حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ.
▫️750- حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ سَلاَّمٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْحَيِّ لاِبْنِ عُمَرَ: إنِّي أَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ، قَالَ: لَقَدْ تَعَمَّقْت.
▫️751- حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إلَى عَلْقَمَةَ فَقَالَ لَهُ: إنَّ بِنْتَ أَخِيك تَوَضَّأَتْ بَعْدَ الْغُسْلِ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهَا لَوْ كَانَتْ عِنْدَنَا لَمْ تَفْعَلْ ذَلِكَ، وَأَيُّ وُضُوءٍ أَعَمُّ مِنَ الْغُسْلِ؟!
▫️752- حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَن عَلْقَمَةَ قَالَ: وَأَيُّ وُضُوءٍ أَعَمُّ مِنَ الْغُسْلِ؟!
▫️753- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ: سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ رَجُلٍ اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ، فَخَرَجَ مِنْ مُغْتَسَلِهِ، أَيَتَوَضَّأُ؟ قَالَ: لا، يُجْزِئُهُ أَنْ يَغْسِلَ قَدَمَيْهِ.
▫️754- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُعَاذِ بْنِ الْعَلاءِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُه عَنِ الْوُضُوءِ بَعْدَ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَكَرِهَهُ.
▫️755- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ فِي الرَّجُلِ يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَتَحْضُرُهُ الصَّلاةُ، أَيَتَوَضَّأُ؟ قَال: لا.
▫️756- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَن حُذَيْفَةَ قَالَ: أَمَا يَكْفِي أَحَدُكُمْ أَنْ يَغْسِلَ مِنْ لَدُنْ قَرْنِهِ إلَى قَدَمِهِ حَتَّى يَتَوَضَّأ؟!
▫️757- حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: كَانَ يُقَالُ: الطّهر قَبْلَ الْغُسْلِ.
▫️758- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَبْدِ اللهِ: إنَّ فُلاَنَةَ تَوَضَّأَتْ بَعْدَ الْغُسْلِ، قَالَ: لَوْ كَانَتْ عِنْدِي لَمْ تَفْعَلْ ذَلِكَ.
(في الوضوء بَعْدَ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ)
🌻 *غسل سے پہلے وضو کرنے سے متعلق عبارات:*
☀️صحیح مسلم میں ہے:
744- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ يَبْدَأُ فَيَغْسِلُ يَدَيْهِ ثُمَّ يُفْرِغُ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَيَغْسِلُ فَرْجَهُ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ يَأْخُذُ الْمَاءَ فَيُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِى أُصُولِ الشَّعْرِ حَتَّى إِذَا رَأَى أَنْ قَدِ اسْتَبْرَأَ حَفَنَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ.
(باب صِفَةِ غُسْلِ الْجَنَابَةِ)
☀️ صحیح بخاری میں ہے:
272 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا اغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ غَسَلَ يَدَيْهِ وَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اغْتَسَلَ ثُمَّ يُخَلِّلُ بِيَدِهِ شَعَرَهُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ أَرْوَى بَشَرَتَهُ أَفَاضَ عَلَيْهِ الْمَاءَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ.
☀️ مختصر القدوری میں ہے:
وَسُنَّةُ الْغُسْلِ: أَنْ يَبْدَأَ الْمُغْتَسِلُ فَيَغْسِلَ يَدَيْهِ وَفَرْجَهُ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ إلَّا رِجْلَيْهِ....
☀️تحفۃ الفقہاء میں ہے:
وأما السنن فما ذكره محمد رحمه الله في «كتاب الصلاة»: وهو أن يبدأ فيغسل يديه إلى الرسغين ثلاثا ثم يفرغ الماء بيمينه على شماله فيغسل فرجه حتى ينقيه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة ثلاثا ثلاثا إلا أنه لا يغسل رجليه ثم يفيض الماء على رأسه وسائر جسده ثلاثا ثم يتنحى عن ذلك المكان فيغسل قدميه. هكذا روت ميمونة زوج النبي عليه السلام أنه اغتسل هكذا. ثم إنما يؤخر غسل القدمين إذا اغتسل في موضوع تجتمع فيه الغسالة تحت القدمين، فأما إذا لم تجتمع بأن اغتسل على حجر ونحوه فلا يؤخر؛ لأنه لا فائدة في تأخيره.
✍🏻۔۔۔ مبین الرحمٰن
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی۔
17 محرم 1441ھ/ 17 ستمبر 2019۔
03362579499
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* ❄✨
*سلسلہ 2:*
🌻 *غسلِ جنابت میں غرارے کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے سے متعلق غلط فہمی اور اس کا ازالہ:*
عوام میں یہ غلط فہمی بہت زیادہ رائج ہے کہ غسلِ جَنابت میں غرارے کرنا اور ناک میں سانس کے ذریعے اوپر پانی چڑھانا فرض ہے، اسی وجہ سے وہ متعدد غلطیوں، پریشانیوں اور وسوسوں کا شکار رہتے ہیں، حتی کہ ماہِ رمضان میں یہ سوال بھی بکثرت پوچھا جاتا ہے کہ جب غسلِ جنابت میں غرارے کرنا اور ناک کے ذریعے پانی اوپر چڑھانا فرض ہے تو پھر روزے کی حالت میں غسل کیسے کریں؟؟ جس کے لیے بعض عوام نے یہ خود ساختہ حل پیش کیا ہے کہ روزے کی حالت میں بس کلی کرلو اور ناک میں پانی ڈال لو، پھر افطاری کے بعد غرارے کرلینا اور ناک میں پانی چڑھا لینا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر متعدد غلطیاں اور پریشانیاں وجود میں آجاتی ہیں، اس لیے اس حوالے سے شرعی مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے:
🌻 *غسل میں غرارے کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا حکم:*
1⃣ غسلِ جنابت میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ٹھیک طرح کلی کی جائے کہ منہ مکمل طور پر دُھل جائے، اور ٹھیک طرح ناک میں پانی ڈالا جائے کہ ناک مکمل طور پر دھل جائے اور نرم ہڈی تک پانی پہنچ جائے، اس سے فرض ادا ہوجائے گا۔
2⃣ غسلِ جنابت میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں مُبالَغہ کرنا سنت ہے۔ کلی کرنے میں مبالغہ کرنے کی صورت یہ ہے کہ خوب اچھی طرح منہ بھر کر کلی کرے یا غرارے کرے، جبکہ ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کی صورت یہ ہے کہ ناک کی نرم ہڈی سے کچھ اوپر پانی چڑھالے، اس طرح مبالغہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔
3⃣ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ مبالغہ کرنا بھی اس شخص کے لیے سنت ہے جو روزے دار نہ ہو لیکن جو شخص روزے دار ہو تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ غسل کرتے وقت وہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ نہ کرے کیوں کہ اس سے روزہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔
4⃣ اگر کوئی شخص غسلِ جنابت میں کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ کی سنت پر عمل نہ کرے بلکہ صرف فرض ہی پورا کرلے تو اس سے بھی غسل ہوجائے گا البتہ سنت پر عمل کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے کہ یہی سنت سے محبت اور اس کی اہمیت کا تقاضا ہے، اس لیے کسی عذر کے بغیر یہ سنت ترک کرنا اچھا نہیں۔ (رد المحتار)
🌻 *روزے کی حالت میں غسل کرنے کا مسئلہ:*
اگر کسی شخص پر غسل فرض ہوجائے تو روزے کی حالت میں غسل کرنا بالکل درست ہے، جہاں تک روزے کی حالت میں غسل کرتے وقت غرارے کرنے اور ناک میں پانی اوپر چڑھانے کا مسئلہ ہے تو ماقبل کی تفصیل سے یہ مسئلہ بخوبی واضح ہوچکا ہے کہ غسلِ جنابت میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا تو فرض ہے البتہ غرارے کرنا اور ناک میں سانس کے ذریعے اوپر تک پانی چڑھانا فرض نہیں بلکہ یہ اُس شخص کے لیے سنت کے درجے میں ہے جو روزے دار نہ ہو، اور جو روزے دار ہو اس کے لیے غسل میں غرارے کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا حکم نہیں، بلکہ روزے دار شخص کے لیے اصل حکم یہ ہے کہ وہ ٹھیک طرح کلی کرے اور ٹھیک طرح ناک میں پانی ڈالے، اس سے فرض ادا ہوجاتا ہے۔
اس لیے اس تفصیل کے بعد روزے کی حالت میں غسل کرنے سے متعلق یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے۔
(رد المحتار علی الدر المختار، فتاویٰ رحیمیہ، عمدۃ الفقہ)
☀️ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
الْبَابُ الثَّانِي في الْغُسْلِ، وَفِيهِ ثَلَاثَةُ فُصُولٍ: الْفَصْلُ الْأَوَّلُ في فرائضه وَهِيَ ثَلَاثَةٌ: الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ وَغَسْلُ جَمِيعِ الْبَدَنِ على ما في الْمُتُونِ، وَحَدُّ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ كما مَرَّ في الْوُضُوءِ من «الْخُلَاصَةِ».
☀️ الدر المختار میں ہے:
(وَفَرْضُ الْغُسْلِ) .... (غَسْلُ) كُلِّ (فَمِهِ) وَيَكْفِي الشُّرْبُ عَبًّا؛ لِأَنَّ الْمَجَّ لَيْسَ بِشَرْطٍ فِي الْأَصَحِّ (وَأَنْفِهِ) حَتَّى مَا تَحْتَ الدَّرَنِ (وَ) بَاقِي (بَدَنِهِ) ...... (وَسُنَنُهُ) كَسُنَنِ الْوُضُوءِ سِوَى التَّرْتِيبِ. وَآدَابُهُ كَآدَابِهِ سِوَى اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ؛ لِأَنَّهُ يَكُونُ غَالِبًا مَعَ كَشْفِ عَوْرَةٍ....
☀️ رد المحتار میں ہے:
(قَوْلُهُ: غَسْلُ كُلِّ فَمِهِ إلَخْ) عَبَّرَ عَن الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ بِالْغَسْلِ؛ لِإِفَادَةِ الِاسْتِيعَابِ أَوْ لِلِاخْتِصَارِ كَمَا قَدَّمَهُ فِي الْوُضُوءِ، وَمَرَّ عَلَيْهِ الْكَلَامُ، وَلَكِنْ عَلَى الْأَوَّلِ لَا حَاجَةَ إلَى زِيَادَةِ «كُلِّ».
(قَوْلُهُ: وَيَكْفِي الشُّرْبُ عَبًّا) أَيْ لَا مَصًّا «فَتْحٌ» وَهُوَ بِالْعَيْنِ الْمُهْمَلَةِ، وَالْمُرَادُ بِهِ هُنَا الشُّرْبُ بِجَمِيعِ الْفَمِ، وَهَذَا هُوَ الْمُرَادُ بِمَا فِي «الْخُلَاصَةِ»: إنْ شَرِبَ عَلَى غَيْرِ وَجْهِ السُّنَّةِ يَخْرُجُ عَن الْجَنَابَةِ وَإِلَّا فَلَا، وَبِمَا قِيلَ: إنْ كَانَ جَاهِلًا جَازَ وَإِنْ كَانَ عَالِمًا فَلَا، أَيْ لِأَنَّ الْجَاهِلَ يَعُبُّ وَالْعَالِمُ يَشْرَبُ مَصًّا كَمَا هُوَ السُّنَّةُ. (قَوْلُهُ: لِأَنَّ الْمَجَّ) أَيْ طَرْحَ الْمَاءِ مِن الْفَمِ لَيْسَ بِشَرْطٍ لِلْمَضْمَضَةِ، خِلَافًا لِمَا ذَكَرَهُ فِي الْخُلَاصَةِ، نَعَمْ هُوَ الْأَحْوَطُ مِنْ حَيْثُ الْخُرُوجُ عَن الْخِلَافِ، وَبَلْعُهُ إيَّاهُ مَكْرُوهٌ كَمَا فِي «الْحلبةِ». (قَوْلُهُ: حَتَّى مَا تَحْتَ الدَّرَنِ) قَالَ فِي «الْفَتْحِ»: وَالدَّرَنُ الْيَابِسُ فِي الْأَنْفِ كَالْخُبْزِ الْمَمْضُوغِ وَالْعَجِينِ يَمْنَعُ. اهـ. وَهَذَا غَيْرُ الدَّرَنِ الْآتِي مَتْنًا، وَقَيَّدَ بِالْيَابِسِ؛ لِمَا فِي شَرْحِ الشَّيْخِ إسْمَاعِيلَ أَنَّ فِي الرَّطْبِ اخْتِلَافَ الْمَشَايِخِ كَمَا فِي «الْقُنْيَةِ» عَن «الْمُحِيطِ»...... الخ
مَطْلَبُ سُنَنِ الْغُسْلِ:
(قَوْلُهُ: وَسُنَنُهُ) أَفَادَ أَنَّهُ لَا وَاجِبَ لَهُ، ط. وَأَمَّا الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ فَهُمَا بِمَعْنَى الْفَرْضِ؛ لِأَنَّهُ يَفُوتُ الْجَوَازُ بِفَوْتِهِمَا، فَالْمُرَادُ بِالْوَاجِبِ أَدْنَى نَوْعَيْهِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ فِي الْوُضُوءِ. (قَوْلُهُ: كَسُنَنِ الْوُضُوءِ) أَيْ مِن الْبدَاءَةِ بِالنِّيَّةِ وَالتَّسْمِيَةِ وَالسِّوَاكِ وَالتَّخْلِيلِ وَالدَّلْكِ وَالْوَلَاءِ إلَخْ وَأُخِذَ ذَلِكَ فِي الْبَحْرِ مِنْ قَوْلِه:ِ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ. (قَوْلُهُ: سِوَى التَّرْتِيبِ) أَيْ الْمَعْهُودِ فِي الْوُضُوءِ، وَإِلَّا فَالْغُسْلُ لَهُ تَرْتِيبٌ آخَرُ بَيَّنَهُ الْمُصَنِّفُ بِقَوْلِهِ: «بَادِئًا» إلَخْ، ط عَنْ أَبِي السُّعُودِ. أَقُولُ: وَيُسْتَثْنَى الدُّعَاءُ أَيْضًا فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ كَمَا فِي «نُورِ الْإِيضَاحِ».
☀️ الدر المختار میں ہے:
(وَغَسْلُ الْفَمِ) أَيْ اسْتِيعَابُهُ، وَلِذَا عَبَّرَ بِالْغَسْلِ أَوْ لِلِاخْتِصَارِ (بِمِيَاهٍ) ثَلَاثَة (وَالْأَنْفِ) بِبُلُوغِ الْمَاءِ الْمَارِنِ (بِمِيَاهٍ) وَهُمَا سُنَّتَانِ مُؤَكَّدَتَانِ مُشْتَمِلَتَانِ عَلَى سُنَنٍ خَمْسٍ: التَّرْتِيبُ، وَالتَّثْلِيثُ، وَتَجْدِيدُ الْمَاءِ، وَفِعْلُهُمَا بِالْيُمْنَى (وَالْمُبَالَغَةُ فِيهِمَا) بِالْغَرْغَرَةِ، وَمُجَاوَزَةِ الْمَارِنِ (لِغَيْرِ الصَّائِمِ) لِاحْتِمَالِ الْفَسَادِ.....
☀️ رد المحتار میں ہے:
(قَوْلُهُ: وَلِذَا عَبَّرَ بِالْغَسْلِ) أَفَادَ أَنَّ الِاسْتِيعَابَ يُفَادُ بِالْغَسْلِ دُونَ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ، وَفِيهِ نَظَرٌ فَإِنَّهُمَا كَذَلِكَ فَالْمَضْمَضَةُ اصْطِلَاحًا: اسْتِيعَابُ الْمَاءِ جَمِيعَ الْفَمِ. وَفِي اللُّغَةِ: التَّحْرِيكُ. وَالِاسْتِنْشَاقُ اصْطِلَاحًا: إيصَالُ الْمَاءِ إلَى الْمَارِنِ. وَلُغَةً مِن النَّشْقِ، وَهُوَ جَذْبُ الْمَاءِ وَنَحْوِهِ بِرِيحِ الْأَنْفِ إلَى دَاخِلِهِ «بَحْرٌ». وَأُجِيبَ بِأَنَّ الْمُرَادَ مَا قَالَهُ الزَّيْلَعِيُّ، وَهُوَ أَنَّ السُّنَّةَ فِيهِمَا الْمُبَالَغَةُ، وَالْغَسْلُ أَدَلُّ عَلَى ذَلِكَ. وَأَوْرَدَ أَنَّ الْمُبَالَغَةَ الْمَذْكُورَةَ لَيْسَتْ نَفْسَ الِاسْتِيعَابِ، عَلَى أَنَّ الْمُبَالَغَةَ سُنَّةٌ أُخْرَى، فَالتَّعْبِيرُ عَنْهَا وَعَنْ أَصْلِهَا بِعِبَارَةٍ وَاحِدَةٍ يُوهِمُ أَنَّهُمَا سُنَّةٌ وَاحِدَةٌ وَلَيْسَ هُنَاكَ «نَهْرٌ». وَأَيْضًا لَا يُنَاسِبُ ذَلِكَ مَنْ صَرَّحَ بِسُنِّيَّةِ الْمُبَالَغَةِ كَالْمُصَنِّفِ. قُلْت: فَالْأَحْسَنُ أَنْ يُقَالَ: إنَّ التَّعْبِيرَ بِغَسْلِ الْفَمِ وَالْأَنْفِ أَدَلُّ عَلَى الِاسْتِيعَابِ مِنْ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ بِالنَّظَرِ إلَى الْمَعْنَى اللُّغَوِيِّ، تَأَمَّلْ..... إلخ (قَوْلُهُ: وَالْمُبَالَغَةُ فِيهِمَا) هِيَ السُّنَّةُ الْخَامِسَةُ. وَفِي «شَرْحِ الشَّيْخِ إسْمَاعِيلَ» عَنْ «شَرْحِ الْمُنْيَةِ»: وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا مُسْتَحَبَّةٌ. (قَوْلُهُ: بِالْغَرْغَرَةِ) أَيْ فِي الْمَضْمَضَةِ، وَمُجَاوَزَةِ الْمَارِنِ فِي الِاسْتِنْشَاقِ، وَقِيلَ: الْمُبَالَغَةُ فِي الْمَضْمَضَةِ تَكْثِيرُ الْمَاءِ حَتَّى يَمْلَأَ الْفَمَ. قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَة:ِ وَالْأَوَّلُ أَشْهَر.
☀️ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وَالتَّرْتِيبُ في الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ سُنَّةٌ عِنْدَنَا كَذَا في «الْخُلَاصَةِ»، وَالْمُبَالَغَةُ فِيهِمَا سُنَّةٌ أَيْضًا كَذَا في «الْكَافِي» وَ«شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ»، إلَّا أَنْ يَكُونَ صَائِمًا كَذَا في «التتار خانية»، وَهِيَ في الْمَضْمَضَةِ بِالْغَرْغَرَةِ كَذَا في «الْكَافِي»، وفي الِاسْتِنْشَاقِ أَنْ يَضَعَ الْمَاءَ على مَنْخِرَيْهِ وَيَجْذِبَهُ حتى يَصْعَدَ إلَى ما اشْتَدَّ من أَنْفِهِ، كَذَا في «الْمُحِيطِ».
☀️ حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:
قوله: (غسل الفم والأنف) أي بدون مبالغة فيهما فإنها سنة فيه على المعتمد.
☀️ سنن ابی داود میں ہے:
2368 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ: حَدَّثَنِى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ عَنْ أَبِيهِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «بَالِغْ فِى الاِسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا».
☀️ البحر الرائق میں ہے:
وقد تَقَدَّمَ مَعْنَى الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ وَأَنَّ الْمُبَالَغَةَ فِيهِمَا سُنَّةٌ في الْوُضُوءِ وَكَذَلِكَ في الْغُسْلِ لِقَوْلِهِ ﷺ: «بَالِغْ فِى الاِسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا»، وهو حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ذَكَرَهُ النَّوَوِيُّ. وَالصَّارِفُ له عن الْوُجُوبِ الِاتِّفَاقُ على عَدَمِهِ كما نَقَلَهُ السِّرَاجُ الْهِنْدِيُّ۔
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* ❄✨
*سلسلہ 3:*
🌻 *جنابت کی حالت میں کھانے پینے اور چلنے پھرنے کا حکم:*
1⃣ جنابت کی حالت میں کھانا پینا جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پہلے منہ ہاتھ دھو لیے جائیں اور کلی کی جائے۔
(سنن ابی داود حدیث: 222، 223، رد المحتار)
2⃣ جنابت کی حالت میں چلنا پھرنا، دوسروں کو سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا اور مصافحہ کرنا بالکل جائز ہے۔
(سنن ابی داود حدیث: 230، 231)
☀️ سنن ابی داود میں ہے:
▫️222- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِىِّ، عَنْ أَبِى سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ.
▫️223- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِىِّ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ زَادَ: «وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ وَهُوَ جُنُبٌ غَسَلَ يَدَيْهِ».
(باب الْجُنُبِ يَأْكُلُ)
▫️230- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِى وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ: أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ لَقِيَهُ فَأَهْوَى إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنِّى جُنُبٌ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُسْلِمَ لا يَنْجُسُ».
▫️231- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَبِشْرٌ عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ أَبِى رَافِعٍ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: لَقِيَنِى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِى طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَأَنَا جُنُبٌ فَاخْتَنَسْتُ فَذَهَبْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ: «أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟» قَالَ: قُلْتُ: إِنِّى كُنْتُ جُنُبًا فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ! إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ».
(باب فِى الْجُنُبِ يُصَافِحُ)
0 Comments