✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 222:*
🌻 *افطار کے احکام مع افطار سے متعلق متعدد غلط فہمیوں کا ازالہ*
▪ *سلسلہ مسائلِ روزہ:* 4⃣
📿 *افطار کا وقت:*
جب سورج غروب ہوجائے اور مغرب کا وقت داخل ہوجائے تو روزہ مکمل ہوجاتا ہے اور یہی افطار کرنے کا اصل وقت ہے، اس لیے مغرب کا وقت داخل ہوجانے کے بعد ہی افطار جائز ہے، اس سے پہلے افطار کرنا ہرگز جائز نہیں۔ (اعلاءالسنن، رد المحتار)
📿 *روزہ افطار کرنے میں مغرب کا وقت داخل ہونے کا اعتبار ہے:*
روزہ افطار کرنے میں اصل اعتبار مغرب کا وقت داخل ہونے کا ہے، یعنی جب مغرب کا وقت داخل ہوجائے تو افطار کرنا جائز ہے اگرچہ اذان نہیں ہوئی ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اگر کسی مسجد میں مغرب کا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی اذان دے دی گئی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں، یہ اذان نہ تو مغرب کی نماز کے لیے معتبر ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے افطار کیا جاسکتا ہے، بلکہ افطار کے لیے مغرب کے وقت کے داخل ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ (اعلاءالسنن، رد المحتار ودیگر کتب)
📿 *افطار میں جلدی کرنے کی حقیقت اور فضیلت:*
متعدد روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افطار کرنے میں جلدی کرنا سنت ہے جس کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ (صحیح بخاری حدیث: 1957) اس طرح کی دیگر روایات سے بھی افطار میں جلدی کرنے کی فضیلت اور تاکید معلوم ہوتی ہے۔ البتہ افطار میں جلدی کرنے سے متعلق چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1⃣ افطار میں جلدی کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغرب کا وقت ہونے سے پہلے ہی افطار کرلی جائے، یہ سنگین غلطی ہے جو کہ قرآن وحدیث اور اجماعِ امت کے خلاف ہے، اس لیے کہ روزہ اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب دن ختم ہوجائے اور رات کا آغاز ہوجائے اور رات کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب مغرب کا وقت داخل ہوجائے، گویا کہ مغرب کا وقت داخل ہونے سے پہلے افطار کرنے کا مطلب یہی ہے کہ روزہ مکمل ہونے سے پہلے یعنی دن ہی میں افطار کرلیا، اس لیے یہ مطلب ہرگز درست نہیں، بلکہ ان روایات کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی مغرب کا وقت داخل ہونے کا یقین ہوجائے تو اس کے بعد جتنا جلدی ہوسکے افطار کرنا افضل ہے۔
2⃣ اس تفصیل سے ان لوگوں کی بھی غلطی معلوم ہوگئی کہ جو مغرب کا وقت داخل ہوجانے کے بعد بھی افطار کرنے میں کافی تاخیر کرتے ہیں اور اسے فضیلت سمجھتے ہیں، ان کا یہ عمل روایات کے خلاف ہے۔
3⃣ مغرب کا وقت داخل ہوجانے کے بعد اگر کوئی شخص بطورِ احتیاط ایک دو منٹ تاخیر کرلے تاکہ اچھی طرح اطمینان ہوجائے تو یہ بالکل درست ہے اور یہ تاخیر کے زمرے میں نہیں آتا۔
📿 *وقت داخل ہونے سے پہلے افطار کرنے کا حکم:*
اگر کسی نے غلطی سے مغرب کا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی افطار کرلیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اس کے ذمے اس روزے کی صرف قضا لازم ہے، البتہ اگر یہ معلوم تھا کہ ابھی افطار کا وقت نہیں ہوا اور پھر بھی اس نے کسی شرعی عذر کے بغیر جان بوجھ کر افطار کرلیا تو اس کے ذمے اس روزے کی قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں، اس لیے اس معاملے میں خوب احتیاط کی ضرورت ہے۔
*افطار کرنے کی دعا:*
1️⃣ *اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ.*
▪ *ترجمہ:* اے اللہ! میں نے آپ ہی کے لیے روزہ رکھا اور آپ ہی کے رزق پر افطار کیا۔
(سنن ابی داود حدیث:2358، پُرنور دعائیں از شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم)
2️⃣ ایک روایت میں یہ دعا بھی وارد ہوئی ہے:
*ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ.*
▪ *ترجمہ:* پیاس جاتی رہی اور رگیں تر ہوگئیں اور ان شاءاللہ اجر ثابت ہوگیا۔
(سنن ابی داود حدیث: 2357)
🌹 *فائدہ:* بعض اہلِ علم کے نزدیک مذکورہ دو دعاؤں میں سے پہلی دعا افطار سے پہلے جبکہ دوسری دعا افطار کے بعد پڑھی جائے۔
📿 *افطار سے متعلق اہم مشورہ:*
بہترین صورت یہ ہے کہ سحر واِفطار کے اوقات سے متعلق اپنے شہر اور علاقے کا کوئی مستند نقشہ اپنے پاس رکھا جائے اور اپنی گھڑی ملک کے معیاری وقت کے مطابق کی جائے، پھر اسی نقشے کا اعتبار کرتے ہوئے اس میں جو مغرب کا وقت لکھا ہوتا ہے اس سے پہلے ہرگز افطاری نہ کی جائے اگرچہ کہیں اذان ہوچکی ہو، بلکہ مغرب کا وقت داخل ہوجانے کے بعد ہی افطاری کی جائے۔ اس پر عمل کرکے غلطی سے حفاظت ہوسکتی ہے۔
📿 *افطار کا وقت دعا کی قبولیت کی وقت:*
متعدد احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ افطار کا وقت بھی اُن اوقات میں سے ہے جن میں دعائیں خصوصیت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں، اس لیے اس وقت کو قیمتی بناتے ہوئے دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
📿 *ماہِ رمضان میں مغرب کی نماز میں مناسب تاخیر کا حکم:*
مغرب کی نماز سے متعلق شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وقت داخل ہوجانے کے بعد جس قدر جلدی ہوسکے اس کو ادا کرلیا جائے، یہی اس کا افضل اور مستحب وقت ہے، البتہ جہاں تک مغرب کی نماز میں تاخیر کا معاملہ ہے تو اس کے تین درجات ہیں:
▪مغرب کی نماز میں دو رکعات کی مقدار سے کم تاخیر کرنا جائز ہے۔
▪دو رکعات کی مقدار سے لے کر ستارے نکلنے اور خوب اندھیرا پھیلنے سے پہلے تک تاخیر کرنا جائز تو ہے لیکن بلا عذر بہتر نہیں ہے۔
▪کسی مجبوری کے بغیر اس قدر تاخیر کرنا مکروہ تحریمی اور گناہ ہے کہ اندھیرا خوب پھیل جائے اور تارے نکل آئیں، یہ مغرب کا مکروہ وقت کہلاتا ہے۔
اس تفصیل کے پیشِ نظر ماہِ رمضان میں افطار کے عذر کو مدنظر رکھتے ہوئے مغرب کی نماز میں اس قدر مناسب وقفہ کرنا درست ہے کہ لوگ گھروں میں افطاری کرکے جماعت میں شامل ہوسکیں، البتہ اس قدر تاخیر ہرگز نہ کی جائے کہ مکروہ وقت داخل ہوجائے یعنی تارے نکل آئیں اور خوب اندھیرا پھیل جائے یعنی اس سے پہلے پہلے ہی مغرب کی نماز ادا کردی جائے۔ (امداد الفتاویٰ، عمدۃ الفقہ، رد المحتار)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
یکم رمضان المبارک1441ھ/ 25 اپریل2020
03362579499
0 Comments