Subscribe Us

روزہ کن لوگوں پر فرض ہے؟* روزہ ہر عاقل، بالغ مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ,بلوغت سے متعلق کے اہم مسائل ، سحری کرنا بھی نیت کے قائم مقام ہے:روزے کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے



✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨


*سلسلہ نمبر 220:*
🌻 *روزے کی فرضیّت اور نیّت کے مسائل*
▪ *سلسلہ مسائلِ روزہ:* 2⃣


📿 *روزہ کن لوگوں پر فرض ہے؟*
روزہ ہر عاقل، بالغ مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (رد المحتار، مراقی الفلاح)


🌼 *بلوغت سے متعلق کے اہم مسائل:*

 *مسئلہ 1⃣:* لڑکا اور لڑکی جب تک بالغ نہ ہوئے ہوں تو اُن کے ذمے روزہ فرض نہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر نابالغ لڑکا یا لڑکی روزہ رکھ کر توڑ دے تو اس کے ذمّے اس روزے کی قضا بھی نہیں، البتہ جب لڑکا یا لڑکی بالغ ہوجائیں تو بالغ ہوتے ہی ان کے ذمّے روزے فرض ہوجاتے ہیں۔ (بدائع الصنائع، رد المحتار)

*مسئلہ 2️⃣:* جو نابالغ بچہ یا بچی رمضان کے مہینے میں صبح صادق سے پہلے بالغ ہوجائے تو اس کے ذمّے اس دن کا روزہ رکھنا بھی فرض ہے۔ (بدائع الصنائع، رد المحتار)

*مسئلہ 3️⃣:* نابالغ بچے یا بچی کا روزہ رکھنا بھی بالکل جائز بلکہ اس کے لیے اجر وثواب کا باعث ہے، اور یہ روزہ نفلی شمار ہوگا۔ اس لیے اگر انھیں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو ان کو روزے رکھنے کی بھرپور ترغیب دینی چاہیے بلکہ بلوغت کے قریب ہونے کے باوجود بھی اگر روزے نہ رکھے تو انھیں مؤثر طریقے سے مناسب تنبیہ بھی کرنی چاہیے تاکہ عادت پڑجائے اور بلوغت کے بعد انھیں روزہ رکھنے میں آسانی رہے۔ 
(بدائع الصنائع، رد المحتار مع الدر المختار)

📿 *بلوغت کی عمر:*

1⃣ اسلامی سال کے اعتبار سے لڑکے کے بالغ ہونے کی کم سے کم عمر 12 سال، جبکہ لڑکی کے بالغ ہونے کی عمر 9 سال ہے، اس سے پہلے لڑکا اور لڑکی بالغ نہیں ہوسکتے۔
2⃣ جب لڑکے کی عمر اسلامی سال کے اعتبار سے 12 سال اور لڑکی کی عمر 9 سال ہوجائے تو اس کے بعد جب بھی بلوغت کی علامات ظاہر ہوجائیں تو یہ دونوں بالغ ہوجاتے ہیں، البتہ اگر  بلوغت کی کوئی بھی علامت ظاہر نہ ہو تو پھر اسلامی سال کے اعتبار سے 15 سال کی عمر میں دونوں بالغ شمار کیے جائیں گے۔
3⃣ لڑکے کے لیے بلوغت کی علامات یہ ہیں: خواب میں اِحتلام ہوجانا، بیداری میں اِنزال ہوجانا یعنی منی نکلنا وغیرہ، جبکہ لڑکی کے لیے بلوغت کی علامات یہ ہیں:  ماہواری یعنی حیض کا آنا، خواب میں احتلام ہوجانا، بیداری میں اِنزال ہوجانا، صحبت کے نتیجے میں حمل ٹھہر جانا وغیرہ۔
(صحیح مسلم حدیث: 4814 مع تکملۃ فتح الملہم، عالمگیریہ، ملتقی الابحر، کنز الدقائق مع البحر الرائق) 
☀ فتاویٰ ہندیہ:
بُلُوغُ الْغُلَامِ بِالِاحْتِلَامِ أو الْإِحْبَالِ أو الْإِنْزَالِ، وَالْجَارِيَةُ بِالِاحْتِلَامِ أو الْحَيْضِ أو الْحَبَلِ كَذَا في «الْمُخْتَارِ». وَالسِّنُّ الذي يُحْكَمُ بِبُلُوغِ الْغُلَامِ وَالْجَارِيَةِ إذَا انْتَهَيَا إلَيْهِ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً عِنْدَ أبي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللهُ تَعَالَى وهو رِوَايَةٌ عن أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، وَعِنْدَ أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى ثَمَانِي عَشْرَةَ سَنَةً لِلْغُلَامِ وَسَبْعَ عَشْرَةَ سَنَةً لِلْجَارِيَةِ كَذَا في «الْكَافِي». وَأَدْنَى مُدَّةِ الْبُلُوغِ بِالِاحْتِلَامِ وَنَحْوِهِ في حَقِّ الْغُلَامِ اثْنَتَا عَشْرَةَ سَنَةً، وفي الْجَارِيَةِ تِسْعُ سِنِينَ، وَلَا يُحْكَمُ بِالْبُلُوغِ إنِ ادَّعَى وهو ما دُونَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً في الْغُلَامِ وَتِسْعِ سِنِينَ في الْجَارِيَةِ كَذَا في «الْمَعْدِنِ». 
(الْفَصْلُ الثَّانِي في مَعْرِفَةِ حَدِّ الْبُلُوغِ)
☀ الدر المختار:
(بُلُوغُ الْغُلَامِ بِالِاحْتِلَامِ وَالْإِحْبَالِ وَالْإِنْزَالِ) وَالْأَصْلُ هُوَ الْإِنْزَالُ، (وَالْجَارِيَةِ بِالِاحْتِلَامِ وَالْحَيْضِ وَالْحَبَلِ) وَلَمْ يَذْكُرِ الْإِنْزَالَ صَرِيحًا؛ لِأَنَّهُ قَلَّمَا يُعْلَمُ مِنْهَا، (فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ فِيهِمَا) شَيْءٌ (فَحَتَّى يَتِمَّ لِكُلٍّ مِنْهُمَا خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، بِهِ يُفْتَى)؛ لِقِصَرِ أَعْمَارِ أَهْلِ زَمَانِنَا. (وَأَدْنَى مُدَّتِهِ لَهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ سَنَةً وَلَهَا تِسْعُ سِنِينَ) هُوَ الْمُخْتَارُ كَمَا فِي «أَحْكَامِ الصِّغَارِ»، (فَإِنْ رَاهَقَا) بِأَنْ بَلَغَا هَذَا السِّنَّ (فَقَالَا: بَلَغْنَا؛ صُدِّقَا إنْ لَمْ يُكَذِّبْهُمَا الظَّاهِرُ) كَذَا قَيَّدَهُ فِي «الْعِمَادِيَّةِ» وَغَيْرِهَا، فَبَعْدَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً يُشْتَرَطُ شَرْطٌ آخَرُ لِصِحَّةِ إقْرَارِهِ بِالْبُلُوغِ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ بِحَالٍ يَحْتَلِمُ مِثْلُهُ، وَإِلَّا لَا يُقْبَلُ قَوْلُهُ،«شَرْحُ وَهْبَانِيَّةٍ»، (وَهُمَا) حِينَئِذٍ (كَبَالِغٍ حُكْمًا) فَلَا يُقْبَلُ جُحُودُهُ الْبُلُوغَ بَعْدَ إقْرَارِهِ مَعَ احْتِمَالِ حَالِهِ فَلَا تُنْقَضُ قِسْمَتُهُ وَلَا بَيْعُهُ، وَفِي «الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ»: يُقْبَلُ قَوْلُ الْمُرَاهِقَيْنِ: «قَدْ بَلَغْنَا» مَعَ تَفْسِيرِ كُلٍّ بِمَاذَا بَلَغَ بِلَا يَمِينٍ. وَفِي «الْخِزَانَةِ»: أَقَرَّ بِالْبُلُوغِ فَقَبْلَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً لَا تَصِحُّ الْبَيِّنَةُ، وَبَعْدَهُ تَصِحُّ اهـ.

🌼 *روزے کی نیت کے مسائل:*

📿 *روزے کے لیے نیت کا حکم:*
روزے کے لیے نیت فرض ہے، بغیر نیت کے روزہ نہیں ہوتا۔ (رد المحتار، مراقی الفلاح)

📿 *نیت کی حقیقت:*

نیت دل کے ارادے اور عزم کا نام ہے کہ دل میں یہ نیت ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے روزہ رکھتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیت کا تعلق دل ہی کے ساتھ ہے اور حقیقی نیت دل ہی کی ہوا کرتی ہے، اس لیے دل میں نیت کرلی تو یہ بھی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بھی درست ہے لیکن ضروری نہیں۔ اگر کوئی شخص دل ہی میں نیت کرلیتا ہے اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا نہیں کرتا تو یہ بالکل جائز ہے۔ (رد المحتار)

📿 *عربی زبان میں نیت کرنے کا حکم:*

نیت کے الفاظ ہر شخص اپنی اپنی زبان میں بھی ادا کرسکتا ہے، اسی طرح  نیت عربی میں کرنا بھی درست ہے لیکن ضروری نہیں۔

📿 *عوام میں مشہور عربی نیت کا حکم:*

آج کل عوام میں نیت کے یہ الفاظ مشہور ہیں: *“وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ”*، حتی کہ بعض لوگ تو اس کو سحری کی دعا سمجھتے ہیں بلکہ متعدد ذرائعِ اِبلاغ کے ذریعےاس کی اشاعت کا بھرپور اہتمام بھی کرتے ہیں، یاد رہے کہ یہ سحری کی دعا تو ہرگز نہیں، البتہ ان الفاظ کے ساتھ نیت کرنا درست تو ہے لیکن یہ الفاظ قرآن وسنت سے ثابت نہیں، اس لیے ان الفاظ کو سنت یا ضروری نہ سمجھا جائے۔ اسی طرح اس کی اشاعت کا اس قدر اہتمام بھی ایک بے بنیاد بات ہے کیوں کہ اس سے بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور لوگ صحیح مسئلے سے ناواقف رہتے ہیں۔

📿 *سحری کرنا بھی نیت کے قائم مقام ہے:*

سحری کرنا بھی نیت کے قائم مقام ہے البتہ اگر سحری کرتے وقت یہ نیت تھی کہ روزہ نہیں رکھنا ہے تو ایسی صورت میں سحری نیت کے قائم مقام نہیں ہوگی بلکہ روزہ رکھنے کے لیے الگ سے نیت ضروری ہے۔


📿 *روزے کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟*

ماہِ رمضان المبارک کے روزے کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟ اس مسئلہ کی تفصیل سے قبل تمہید کے طور پر کچھ وضاحت ذکر کرنا ضروری ہے۔

📿 *نِصْفُ النَّہار کی حقیقت

“نصف النہار” کے معنی ہیں:  آدھا دن۔ “نصف النہار” کی دو اقسام ہیں: 
1⃣ *نصف النہار عرفی:*
سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک پورے دن کا جتنا بھی وقت ہے اس کے آدھے وقت کو “نصف النہار عرفی” کہتے ہیں، یعنی عرف میں آدھا دن یہیں تک ہوتا ہے۔ اس کو زوال بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نقشوں میں جو زوال کا وقت لکھا ہوتا ہے تو اس سے یہی نصف النہار عرفی ہی مراد ہوتا ہے، جس کے بعد ظہر کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
2⃣ *نصف النہار شرعی:*
صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک پورے دن کا جتنا بھی وقت ہے اس کے آدھے وقت کو “نصف النہار شرعی” کہتے ہیں، یعنی شریعت کی نگاہ میں آدھا دن یہیں تک ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نصف النہار شرعی کا وقت نصف النہار عرفی سے کچھ پہلے ہوتا ہے۔
❄ *فائدہ:* ماہِ رمضان کے روزوں کی نیت میں نصف النہارشرعی کا اعتبار ہے نہ کہ نصف النہار عرفی کا۔ 

❄ *مسئلہ کی تفصیل:*
ماقبل کی وضاحت کے بعد مسئلہ سمجھیے کہ:
1⃣ رمضان کے روزے کی نیت رات سے بھی درست ہےاور سحری کے وقت یعنی صبح صادق سے پہلے بھی درست ہے، البتہ جس شخص نے سحری کے وقت بھی نیت نہیں کی یہاں تک کہ صبح صادق کا وقت داخل ہوگیا تو وہ “نصف النہارشرعی” سے پہلے پہلے روزے کی  نیت کرسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ صبح صادق طلوع ہونے کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ اسی طرح وہ حضرات جو سحری سے رہ جاتے ہوں اور صبح صادق کے بعد ہی بیدار ہوجاتے ہوں تو ان کے لیے بھی اتنی سہولت ہے کہ وہ نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے نیت کرکے روزہ رکھ لیا کریں اس شرط کے ساتھ  کہ صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو۔
2⃣ جس شخص نے “نصف النہار شرعی” تک بھی نیت نہیں کی تو اس کے بعد اس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں، اب اس کے ذمے اس روزے کی قضارکھنا ضروری ہے، اور ایسا شخص اس دن دیگر روزہ داروں کی طرح افطار تک کچھ کھائے پیے گا بھی نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، فتاویٰ رحیمیہ، مراقی الفلاح مع نور الایضاح، بہشتی زیور)

📿 *مثال: رمضان سال 2020 میں کراچی پاکستان کے لیے “نصف النہار شرعی” کا وقت:*
رواں سال (یعنی 2020ء/1441ھ کے) رمضان المبارک میں کراچی کے لیے “نصف النہار شرعی” کا وقت تقریبًا پونے بارہ (11:45) بجے تک ہے، یعنی ماقبل کی تفصیل کے مطابق اس سے پہلے پہلے نیت کی جاسکتی ہے۔

🌹 *فائدہ:*
سحری اور افطار کے اوقات پر مشتمل کیلینڈر بنانے والے حضرات اگر کیلینڈر میں نصف النہار شرعی کا خانہ بھی بڑھا دیں تو بہت سے لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

📿 *نفلی، قضا اور کفارے کے روزوں کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟*
یہی حکم نفلی روزوں کا بھی ہے کہ اگرصبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو تو نصف النہار شرعی سے پہلے تک ان کی  نیت درست ہے، البتہ قضا اور کفارے کے روزوں کی نیت صبح صادق سے پہلے پہلے کرنی ضروری ہے، اگر کسی نے صبح صادق سے پہلے نیت نہیں کی تو صبح صادق کے بعد ان روزوں کی نیت معتبر نہیں۔
(بہشتی زیور، رد المحتار)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم 

Post a Comment

0 Comments