Subscribe Us

نمازِ تراویح: جماعت، امامت، سماعت اور سجدہ گھر میں انفرادی نمازِ تراویح کا حکم 📿 *خواتین کے لیے تراویح کے لیے مسجد جانے کا حکم



✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨


*سلسلہ نمبر 217:*
🌻 *نمازِ تراویح: جماعت، امامت، سماعت اور سجدہ تلاوت*
▪ *سلسلہ احکامِ تراویح:* 3⃣
🌼 *تراویح کی جماعت کے احکام:*



📿 *مسجد میں نمازِ تراویح کی جماعت کا حکم:*
حضراتِ فقہاء کرام کے اقوال کی روشنی میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں نمازِ تراویح کی جماعت سنت علی الکفایۃ ہے۔

🌼 *فقہی عبارات ملاحظہ فرمائیں:*
☀ البحر الرائق:
الثَّالِثُ: ما صَحَّحَهُ في الْمُحِيطِ وَالْخَانِيَّةِ وَاخْتَارَهُ في الْهِدَايَةِ وهو قَوْلُ أَكْثَرِ الْمَشَايِخِ على ما في الذَّخِيرَةِ وَقَوْلُ الْجُمْهُورِ على ما في الْكَافِي أن إقَامَتَهَا بِالْجَمَاعَةِ سُنَّةٌ على الْكِفَايَةِ حتى لو تَرَكَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ كلهم الْجَمَاعَةَ فَقَدْ أساءوا وَأَثِمُوا. وَإِنْ أُقِيمَت التَّرَاوِيحُ بِالْجَمَاعَةِ في الْمَسْجِدِ وَتَخَلَّفَ عنها أَفْرَادُ الناس وَصَلَّى في بَيْتِهِ لم يَكُنْ مُسِيئًا؛ لِأَنَّ أَفْرَادَ الصَّحَابَةِ يُرْوَى عَنْهُمْ التَّخَلُّفُ كَابْنِ عُمَرَ على ما رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.
☀ الدر المختار:
(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط، وفي التراويح سنة كفاية، وفي وتر رمضان مستحبة على قول، وفي وتر غيره وتطوع على سبيل التداعي مكروهة، وسنحققه.
☀ رد المحتار:
قوله: (والجماعة فيها سنة على الكفاية الخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين فلو تركها واحد كره بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية فلو تركها الكل أساؤوا، أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات كما في المنية. وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول، واستظهر ط الثاني، ويظهر لي الثالث لقول المنية حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساؤوا. وظاهر كلامهم هنا أن المسنون كفاية إقامتها بالجماعة في المسجد حتى لو أقاموها جماعة في بيوتهم ولم تقم في المسجد أثم الكل، وما قدمناه عن المنية فهو في حق البعض المختلف عنها. وقيل: إن الجماعة فيها سنة عين فمن صلاها وحده أساء وإن صليت في المساجد، وبه كان يفتي ظهير الدين، وقيل: تستحب في البيت إلا لفقيه عظيم يقتدى به فيكون في حضوره ترغيب غيره. والصحيح قول الجمهور أنها سنة كفاية وتمامه في البحر.
☀ الهندية:
وَالْجَمَاعَةُ فيها سُنَّةٌ على الْكِفَايَةِ كَذَا في التَّبْيِينِ وهو الصَّحِيحُ كَذَا في مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ، لو أَدَّى التَّرَاوِيحَ بِغَيْرِ جَمَاعَةٍ أو النِّسَاءِ وَحْدَهُنَّ في بُيُوتِهِنَّ يَكُونُ تَرَاوِيحَ كَذَا في مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ، وَلَوْ تَرَكَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ كلهم الْجَمَاعَةَ فَقَدْ أَسَاءُوا وَأَثِمُوا كَذَا في مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ، وَإِنْ تَخَلَّفَ وَاحِدٌ من الناس وَصَلَّاهَا في بَيْتِهِ فَقَدْ تَرَكَ الْفَضِيلَةَ وَلَا يَكُونُ مُسِيئًا وَلَا تَارِكًا لِلسُّنَّةِ.

📿 *مسجد کے علاوہ دیگر مقامات میں تراویح کی جماعت کا حکم:*
 اگر مسجد میں تراویح کی  جماعت ہوتی ہو تو ایسی صورت میں مسجد کے علاوہ  کسی گھر یا دفتر وغیرہ میں باجماعت تراویح پڑھنا بھی جائز ہے، البتہ ایسی صورت  میں مسجد کے ثواب سے محرومی رہے گی۔


(فتاویٰ عالمگیری)

📿 *ایک مسجد میں تراویح کی متعدد جماعتوں کا حکم:*
عام حالات میں تو بہتر اور مناسب یہی ہے کہ مسجد میں تراویح کی ایک ہی جماعت ادا کی جائے، البتہ کسی ضرورت کے پیشِ نظر ایک مسجد میں مختلف مقامات میں تراویح کی ایک سے زائد جماعتیں کرانا جائز ہے، البتہ اس میں درج ذیل باتوں کی رعایت ضروری ہے:
▪ مسجد میں ایک سے زائد جماعتوں کا انعقاد کسی نفسانیت، مخالفت یا فتنہ پروری جیسے مذموم مقاصد کی وجہ سے نہ ہو۔
▪ آواز ٹکرانے یا اس جیسے دیگر امور کی وجہ سے جماعتوں میں خلل پیدا نہ ہوتا ہو۔

📿 *گھر میں انفرادی نمازِ تراویح کا حکم:*
مردوں کے لیے سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ وہ مسجد میں باجماعت تراویح ادا کریں جس میں ختمِ قرآن کا اہتمام بھی ہو، ان تین باتوں میں سے جس میں بھی کمی آئے گی تو اس کی وجہ سے فضیلت میں بھی کمی آئے گی۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے گھر میں اکیلے مختصر تراویح پڑھنا جائز تو ہے لیکن اس میں مسجد، جماعت اور ختمِ قرآن تینوں کے ثواب سے محرومی ہے، اس لیے بلا عذر گھر میں اکیلے مختصر تراویح پڑھنا بہتر نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ تو ہوتا ہی عبادات کے لیے ہے، اس میں تو بڑھ چڑھ کر ثواب کے کام کرنے چاہیے، بلکہ مشقت برداشت کرکے عبادت کرنے کا ثواب تو اور بھی زیادہ ہے، تو نیکیوں کے ایسے پُر بہار موسم میں بھی کوئی محروم رہ جائے تو کتنی نقصان والی بات ہے!!


📿 *خواتین کے لیے تراویح کے لیے مسجد جانے کا حکم:*

خواتین کے لیے تراویح پڑھنے کی غرض سے مسجد جانا درست نہیں، بلکہ انھیں گھر ہی میں تراویح ادا کرنی چاہیے اور یہی ان کے لیے افضل ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: عورت کے لیے صحن میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کمرے میں نماز پڑھے، اور کمرے میں بھی زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کسی کونے (اور پوشیدہ جگہ) میں نماز ادا کرے۔
☀ سنن ابی داود میں ہے:
570: عَنْ عَبْدِ اللهِ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ  قَالَ: «صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِى بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِى حُجْرَتِهَا، وَصَلَاتُهَا فِى مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِى بَيْتِهَا».
اس سے معلوم ہوا کہ یہ جو آجکل بعض لوگ خواتین کو نمازِ تراویح کے لیے مسجد جانے کی ترغیب دیتے ہیں تو یہ واضح غلطی ہے جس کے متعدد مفاسد ہیں۔ 

📿 *خواتین کے لیے گھر میں تراویح کی جماعت کا حکم:*

خواتین کے لیے تراویح کی جماعت سنت تو نہیں، البتہ اگر  گھر ہی میں شرعی طریقے کے مطابق باجماعت تراویح ادا کرنے کا صحیح انتظام ہوسکتا ہو تو یہ بھی درست ہے، بصورتِ دیگر گھر ہی میں تنہا تراویح ادا کرلیا کریں۔

🌼 *تراویح میں امامت اور سماعت کے احکام:*


📿 *تراویح کے لیے امامت کے احکام وآداب:*
1⃣ امام ظاہری طور پر شریعت کے مطابق ہو اور کسی کبیرہ گناہ میں مبتلا نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو تو جب تک وہ توبہ نہ کرلے اسے امام نہیں بنانا چاہیے۔
▪ *مسئلہ:* اسی طرح اگر کوئی شخص ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرتا ہوتو اس کو امام بنانا ناجائز ہے، اور اگر کوئی حافظ صاحب رمضان سے پہلے ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنے سے توبہ کرلے تو بھی جب تک ایک مشت ڈاڑھی پوری نہ ہوجائے اس کو امام بنانا مکروہ ہے۔
▪ *مسئلہ:* اگر کوئی حافظ ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرتا ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور صالح متبعِ شریعت حافظ میسر نہ ہو جو کہ ختمِ قرآن کراسکے تو ایسی صورت میں ایسے حافظ کے پیچھے تراویح نہ پڑھی جائے بلکہ کسی اور مناسب شخص کی اقتدا میں آخری سورتوں کے ساتھ مختصر تراویح ادا کی جائے۔
2⃣ امام صحیح العقیدہ ہو، جس امام کا عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کے خلاف ہو تو اسے امام نہ بنایا جائے۔
3⃣ امام بالغ ہو، کیوں کہ نابالغ کی اقتدا میں بالغ حضرات کی نماز جائز نہیں، البتہ نابالغ کی اقتدا میں نابالغ کی نماز جائز ہے۔
▪ *بُلوغت کی عمر:* اسلامی سال کے اعتبار سے لڑکے کے بالغ ہونے کی کم سے کم عمر 12 سال ہے، اس سے پہلے لڑکا بالغ نہیں ہوسکتا۔ جب لڑکے کی عمر اسلامی سال کے اعتبار سے 12 سال ہوجائے تو اس کے بعد جب بھی بلوغت کی علامات (جیسے: خواب میں اِحتلام ہوجانا، بیداری میں اِنزال ہوجانا یعنی منی  نکلنا، وغیرہ) ظاہر ہوجائیں تو یہ بالغ ہوجاتا ہے، البتہ اگر  بلوغت کی کوئی بھی علامت ظاہر نہ ہو تو پھر اسلامی اعتبار سے 15 سال کی عمر میں لڑکا  بالغ شمار کیا جائے گا۔
4⃣ ایسے حافظ صاحب کو تراویح میں ختمِ قرآن کے لیے  امام نہیں بنانا چاہیے جن کو قرآن کریم ٹھیک طرح یاد نہ ہو یا جو قرآن ٹھیک طرح نہ پڑھتا ہو۔
5️⃣ ایسے حافظ صاحب کو امام نہیں بنانا چاہیے جس کو نماز وغیرہ کے ضروری مسائل بھی معلوم نہ ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ ہر حافظ صاحب کو چاہیے کہ وہ تراویح سے متعلق بنیادی اور  ضروری مسائل کا علم حاصل کرلے۔
6️⃣ جو امام کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو وہ  بھی تراویح پڑھا سکتا ہے۔
7️⃣ اگر حافظ صاحب کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر تراویح پڑھائے تو یہ بھی جائز ہے۔
(فتاویٰ قاضی خان، البحر  الرائق، فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ محمودیہ ودیگر کتب)

📿 *سامع مقرر کرنے اور لقمہ دینے کے احکام:*
1⃣ تراویح میں ختمِ قرآن کی سماعت کے لیے سامع مقرر کرنا ضروری نہیں، اس لیے اگر کسی نے سامع مقرر نہیں کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ مناسب اور بہتر یہی ہے کہ سامع مقرر کرلیا جائے کیوں کہ اس میں بڑی سہولت رہتی ہے۔
2⃣ سامع کے لیے بالغ ہونا ضروری نہیں بلکہ نابالغ سمجھ دار حافظ لڑکا بھی سامع بن سکتا ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی)
3⃣ سامع کو اجرت دینے کا وہی حکم ہے جو تراویح پڑھانے والے کا ہے، یعنی جائز نہیں، جس کی تفصیل آگے ذکر ہوگی ان شاء اللہ۔
4⃣ سامع کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ فورًا لقمہ نہ دے، بلکہ ذرا انتظار کرلے کہ امام خود ہی ٹھیک کرلے، لیکن اگر امام کو آیت یاد نہیں آرہی ہو تو پھر لقمہ دے دے، البتہ یہ یاد رہے کہ لقمہ دینے والے کا اسی جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایسے شخص نے لقمہ دیا جو اس جماعت میں شامل نہ تھا اور امام نے لے لیاتو ایسی صورت میں سب کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ (رد المحتار)
5️⃣ لقمہ اس قدر آواز سے دیا جائے کہ امام بآسانی سن سکے۔
6️⃣ اگر امام نے سامع کا لقمہ نہیں لیا تو اس سے سامع کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
7️⃣ یہ اہم مسئلہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ احناف کے نزدیک تراویح کے دوران قرآن کریم کو دیکھ کر لقمہ دینا جائز نہیں کیوں کہ اس سے سب کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ (رد المحتار)
8️⃣ انتظامی تقاضا یہ ہے کہ تراویح میں سماعت کے لیے جو حافظ صاحب مقرر ہو صرف وہی لقمہ دے لیکن اگر اس کے علاوہ اس جماعت میں شامل کسی اور نے لقمہ دے دیا تو اس سے بھی کسی کی نماز پر اثر نہیں پڑتا۔

📿 *تراویح پر اجرت لینے کا حکم:*

1⃣ تراویح پڑھانے کی اجرت لینا ناجائز اور گناہ ہے، ایسے حفاظ جو تراویح پڑھانے پر اجرت کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو تراویح پڑھانے کا ہرگز موقع نہ دیا جائے۔
2⃣ تراویح پڑھانے کی اجرت اگر طے نہ کی جائے لیکن وہاں کا عمومی رواج ایسا ہو کہ تراویح پڑھانے پر اجرت دینی پڑتی ہو تو یہ بھی جائز نہیں۔
3⃣ اگر کہیں تراویح کی اجرت طے نہ ہو اور وہاں اجرت دینے کا رواج بھی نہ ہو حتی کہ تراویح پڑھانے والے کے دل میں اجرت لینے کی نیت بھی نہ ہو، ایسے میں اگر کوئی شخص تراویح پڑھانے والے کو اپنی خوشی سے رقم یا کوئی چیز ہدیہ کردے اور اس کو تراویح کا عوض نہ سمجھے تو یہ لینا جائز ہے، البتہ ایسی صورتحال بہت ہی کم ہے۔ (فتاویٰ عثمانی ودیگر کتب)

📿 *تراویح میں سجدہ تلاوت کے احکام:*

1⃣ قرآن کریم میں کل 14 سجدے ہیں، اور سجدہ تلاوت کا حکم یہ ہے کہ اسے ادا کرنا واجب ہے، اس لیے نماز میں سجدہ تلاوت کی آیت پڑھنے سے سجدہ تلاوت کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے۔ 
2⃣ نمازِ تراویح میں جب امام سجدہ تلاوت کی آیت پڑھ لے تو امام اور مقتدی دونوں پر سجدہ تلاوت کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے۔
3⃣ جس شخص نے تراویح میں سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کی اور  تین آیات تک سجدہ تلاوت نہ کیا تو اس کو چاہیے کہ سلام سے پہلے پہلے جب بھی یاد آئے یا موقع ملے تو سجدہ تلاوت کرکے نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلے، لیکن اگر نماز میں کسی بھی موقع پر سجدہ تلاوت ادا نہ کیا تو نماز کے بعد اب اس سجدہ تلاوت کا موقع نہیں رہا، اب سوائے استغفار کے اور کوئی صورت نہیں۔
4⃣ تراویح میں سجدہ تلاوت کی آیت پڑھنے کے بعد بہتر تو یہی ہے کہ اس کے لیے مستقل سجدہ کیا جائے البتہ اگر کوئی شخص مستقل سجدہ نہ کرنا چاہے تو اس کے لیے سجدہ تلاوت کی آیت پڑھنے کے بعد  تین آیات تک یہ اختیار  ہے کہ وہ یا تو رکوع میں چلا جائے اور اسی میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلے تو اس سے بھی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، لیکن اگر اس نے رکوع میں نیت نہیں کی تو رکوع کے بعد جو نماز کا سجدہ آرہا ہے اس میں تو نیت کے بغیر بھی سجدہ تلاوت خود بخود ادا ہوجائے گا، البتہ امام کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ رکوع میں سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی نیت نہ کرے تاکہ نماز کے سجدے میں امام اور مقتدی سب کا سجدہ تلاوت ایک ساتھ ادا ہوجائے۔ واضح رہے کہ یہ مذکورہ بالا اختیار اس صورت میں ہے کہ جب اس نے سجدہ تلاوت کی آیت پڑھنے کے بعد تین آیات سے زیادہ تلاوت نہ کی ہو، لیکن اگر تین آیات سے زیادہ پڑھ لی تو ایسی صورت میں یہ سجدہ تلاوت رکوع اور نماز کے سجدے سے ادا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مستقل سجدہ کرنا پڑے گا، جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوا۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ جو امام کسی وجہ سے سجدہ تلاوت کا اعلان نہ کرسکے تو اس کے لیے اس مسئلے پر عمل کرنے میں بڑی سہولت ہے۔
5️⃣ امام نے تراویح میں سجدہ تلاوت کی آیت پڑھ کر سجدہ کیا پھر جب قیام کے لیے لوٹ آیا تو وہی سجدے کی آیت دوبارہ پڑھ لی تو ایسی صورت میں وہ پہلا سجدہ کافی ہے، دوبارہ سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
6️⃣ اگر امام نے سجدہ تلاوت کرنے  کے بعدکچھ پڑھے بغیر  ہی رکوع کرلیا تب بھی نماز درست ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ  رکوع میں جانے سے پہلے کچھ تلاوت کرلی جائے۔ 
7️⃣ اگر امام نے سجدہ تلاوت ادا کرنے کے بعد دوبارہ سورتِ  فاتحہ پڑھ لی تو اس سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔
(رد المحتار، فتاویٰ عالمگیری، نمازِ تراویح کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)

✍🏻۔۔۔ 9499

Post a Comment

0 Comments