- ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 219:*
🌻 *روزے سے متعلق بنیادی باتیں*
▪ *سلسلہ مسائلِ روزہ:* 1⃣
📿 *روزے کی حقیقت:*
شریعت کی نظر میں صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک عبادت کی نیت سے کھانے پینے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے بچنے کو روزہ کہتے ہیں۔ (رد المحتار، الاختیار)
📿 *روزے کی اقسام:*
حکم اور درجے کے اعتبار سے روزے کی متعدد اقسام ہیں:
▪ *فرض روزے:* جیسے ماہِ رمضان کے روزے۔
▪ *واجب روزے:* جیسے نذر اور منت کے روزے۔
▪ *مسنون اور مستحب روزے:* جیسے ایامِ بیض کے تین روزے، پیر اور جمعرات کے روزے، عاشورا کا روزہ وغیرہ۔
▪ *نفلی روزے:* جیسے عام دنوں کے نفلی روزے۔
▪ *ممنوع اور مکروہ روزے:* جیسے عیدین کے دن روزہ رکھنا۔
ان کی تفصیل متعلقہ فقہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے، ذیل میں صرف ماہِ رمضان کے روزوں کے مسائل ذکر کیے جاتے ہیں۔
📿 *ماہِ رمضان کے روزے اسلام کا ایک اہم رکن:*
دین اسلام میں ماہِ رمضان کے روزے فرض قرار دیے گئے ہیں بلکہ انھیں اسلام کے ارکان اور فرائض میں سے ایک اہم رکن اور فرض کی حیثیت دی گئی ہے، جس سے ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں ماہِ رمضان کے روزوں کی بڑی اہمیت، فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے۔ یہ روزے ماہِ رمضان المبارک کی عبادات میں سے ایک نمایاں اور اہم ترین مقام رکھتے ہیں۔ اس لیے ان روزوں کا اہتمام اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ماہِ رمضان کے روزوں کا بھرپور اہتمام کرے۔
📿 *روزے کی فرضیت اور حکمت قرآن کریم کی روشنی میں:*
ماہِ رمضان المبارک کے روزوں سے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں فرماتے ہیں کہ:
*يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.*
▪ *ترجمہ:* اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ (آسان ترجمہ قرآن)
📿 *اس آیت سے درج ذیل بنیادی باتیں واضح ہوتی ہیں:*
▪ماہِ رمضان کے روزے امتِ مسلمہ پر فرض کیے گئے ہیں۔
▪ماہِ رمضان کے روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض تھے۔
▪روزے فرض کرنے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے۔
☀️ *مذکورہ آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:*
صوم کے لفظی معنی اِمساک یعنی رکنے اور بچنے کے ہیں اور اصطلاحِ شرع میں کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رکنے اور باز رہنے کا نام صوم ہے بشرطیکہ وہ طلوعِ صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک مسلسل رُکا رہے اور نیت روزہ کی بھی ہو، اس لیے اگر غروبِ آفتاب سے ایک منٹ پہلے بھی کچھ کھا پی لیا تو روزہ نہیں ہوا، اسی طرح اگر ان تمام چیزوں سے پرہیز تو پورے دن پوری احتیاط سے کیا مگر نیت روزہ کی نہیں کی تو بھی روزہ نہیں ہوا۔
صوم یعنی روزہ اُن عبادات میں سے ہے جن کو اسلام کے عمود اور شعائر قرار دیا گیا ہے، اس کے فضائل بے شمار ہیں جن کے تفصیلی بیان کا یہ موقع نہیں۔
🌺 *پچھلی امتوں میں روزے کا حکم:*
روزے کی فرضیت کا حکم مسلمانوں کو ایک خاص مثال سے دیا گیا ہے، حکم کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہ روزے کی فرضیت کچھ تمہارے ساتھ خاص نہیں، پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے تھے، اس سے روزے کی خاص اہمیت بھی معلوم ہوئی اور مسلمانوں کی دلجوئی کا بھی انتظام کیا گیا کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیز ہے مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی سب لوگ اٹھاتے آئے ہیں، طبعی بات ہے کہ مشقت میں بہت سے لوگ مبتلا ہوں تو وہ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے۔ (روح المعانی)
قرآن کریم کے الفاظ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ عام ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام شریعتوں اور امتوں کو شامل ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی شریعت اور کوئی امت خالی نہیں رہی اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا ہے۔ جن حضرات نے فرمایا ہے کہ مِنْ قَبْلِکُمْ سے اس جگہ نصاریٰ مراد ہیں وہ بطور ایک مثال کے ہے، اس سے دوسری امتوں کی نفی نہیں ہوتی۔ (روح)
آیت میں صرف اتنا بتلایا گیا ہے کہ روزے جس طرح مسلمانوں پر فرض کیے گئے پچھلی امتوں میں بھی فرض کیے گئے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پچھلی امتوں کے روزے تمام حالات وصفات میں مسلمانوں ہی کے روزوں کے برابر ہوں، مثلًا روزوں کی تعداد، روزوں کے اوقات کی تحدید اور یہ کہ کن ایام میں رکھے جائیں؛ ان امور میں اختلاف ہوسکتا ہے، چنانچہ واقعہ بھی ایسا ہی ہوا کہ تعداد میں بھی کمی بیشی ہوتی رہی اور روزے کے ایام اور اوقات میں فرق ہوتا رہا ہے۔ (روح)
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ تقویٰ کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے، وہی تقویٰ کی بنیاد ہے۔ (معارف القرآن)
📿 *روزے سے متعلق علم حاصل کرنا فرض ہے:*
چوں کہ ماہِ رمضان کے روزے اسلام کے فرائض میں سے ہے اس لیے اس سے متعلق علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیوں کہ اس کے بغیر ٹھیک طرح روزوں کی ادائیگی نہیں ہوسکتی، بلکہ کئی دفعہ تو روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے لیکن اس کا احساس ہی نہیں ہوتا،یہ بات تو ظاہر ہے ہی کہ عمل کی درستی کے لیے علم ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی کس قدر افسوس اور دکھ والی ہے کہ ایک مسلمان زندگی بھر روزے رکھتا رہے لیکن شریعت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسی غلطیوں کا شکار رہے کہ شریعت کی نگاہوں میں اس کے روزے درست ہی نہ ہوں، جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ اس کے روزے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوسکتے!
اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزے سے متعلق بنیادی اور ضروری علم حاصل کرلے تاکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم حسنِ خوبی کے ساتھ بجا لایا جاسکے۔
📿 *روزے سے متعلق مسائل سیکھنے کے فوائد:*
روزے سے متعلق علم حاصل کرنے کے متعدد فوائد سامنے آتے ہیں:
❄ علم حاصل کرنے کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے۔
❄ علم حاصل کرنے پر اجر وثواب نصیب ہوتا ہے۔
❄ روزے سے متعلق بہت سی غلطیاں اور غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں۔
❄ روزہ رکھنے کا یہ فریضہ حسنِ خوبی کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے۔
❄ روزے کو توڑنے اور مکروہ کردینے والی چیزوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
❄ یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ رمضان کے روزوں میں شریعت نے جو رخصتیں اور سہولتیں رکھی ہیں ان کی حدود کیا ہیں۔
❄ روزوں کے درست ہونے پر اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔
❄ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزے کی قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔
❄ دوسروں کی صحیح راہنمائی بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا اجر وثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
❄ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہوجاتی ہے۔
📿 *روزوں سے متعلق عمومی غلطیوں کا اجمالی تذکرہ:*
روزے سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں اور غلطیاں رائج ہیں، ذیل میں ان کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے:
▪بہت سے لوگ روزوں سے متعلق بنیادی مسائل نہیں سیکھتے، بلکہ بہت سے لوگ تو دوسروں سے سنی سنائی باتوں پر عمل کرلیتے ہیں، جس کے نتیجے میں غلطیاں سرزد ہوجانا ایک واضح سی بات ہے۔
▪بہت سے لوگوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ لڑکا یا لڑکی پر کس وقت سے روزہ فرض ہوجاتا ہے۔
▪بہت سے لوگ سحری سے متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہیں کہ بعض تو اس کو اہمیت ہی نہیں دیتے جبکہ بعض اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔
▪بہت سے لوگ فجر کی اذان کے ساتھ سحری بند کرتے ہیں حالاں کہ یہ سنگین غلطی ہے۔
▪بہت سے لوگ روزے کی نیت کے بنیادی مسائل سے بھی ناواقف ہوتے ہیں اور انھیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ رمضان کے روزے کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟
▪بہت سے لوگ ایسے کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا کم از کم مکروہ ہوجاتا ہے لیکن انھیں علم ہی نہیں ہوتا۔
▪بہت سے لوگ جان بوجھ کر روزہ توڑ دیتے ہیں پھر جب کفارے کا بتایا جاتا ہے تو افسوس کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کفارے کی خبر ہی نہ تھی، ظاہر ہے کہ یہ عذر کیسے قبول ہوسکتا ہے!
▪بہت سے لوگ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں بہر صورت فدیہ دینے کا اہتمام کرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلط فہمی ہے۔
▪بہت سے لوگ متعین وقت کی رعایت کیے بغیر محض اندازے سے افطار کرلیتے ہیں، یا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی افطار کرلیتے ہیں جو کہ بڑی غلطیاں ہیں۔
▪بہت سے لوگ روزے کے مفسدات اور مکروہات سے بھی لاعلم ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں روزہ ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے سے متعلق کشمکش کا شکار رہتے ہیں۔
▪بہت سے لوگ معمولی عذر کا بہانہ بناکر بھی روزے ترک کردیتے ہیں اور انھیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ شریعت نے روزے نہ رکھنے کے جو اعذار اور مجبوریاں بیان کی ہیں ان کی حدود اور شرائط کیا ہیں؟ اور کون سے مرض اورعذر کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی گنجائش ہے؟ کون سا عذر معتبر ہے اور کون سا معتبر نہیں؟
▪بہت سے لوگ روزے میں غسل کرنے سے متعلق غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں۔
▪بعض لوگ کسی عذر کے پیشِ نظر روزہ توڑ دیتے ہیں پھر اس کے بعد کسی مفتی صاحب سے پوچھتے ہیں، حالاں کہ پہلے پوچھنا چاہیے پھر اس کے بعد روزہ توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
▪اس طرح کی بہت سے غلطیاں رائج ہیں جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم روزے کے مسائل سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے، اگر ہم روزے کے مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے تو یہ غلطیاں اور غلط فہمیاں خود بخود ختم ہوجاتیں۔
📿 *روزے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیسے قبول ہوں؟*
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزوں کی قبولیت کے لیے درج ذیل باتوں کا اہتمام کیا جائے:
▪روزے سے متعلق مسائل سیکھ لیے جائیں۔
▪روزے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دلی رضامندی سے رکھے جائیں۔
▪روزے میں ہر قسم کے گناہوں اور مکروہات سے اجتناب کیا جائے۔
▪روزے کو توڑنے یا مکروہ کردینے والی چیزوں سے خصوصی اجتناب کیا جائے۔
▪روزے کے لمحات کو قیمتی بناتے ہوئے وسعت کے مطابق عبادات میں صرف کیے جائیں۔
ان باتوں کے اہتمام سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزوں کی قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔
2579499
0 Comments