Subscribe Us

*رمضان،تراویح کی فضیلت اور اس کی شرعی حیث،نماز،ramadam 2020, taraweeh

 رمضان المبارک

اسلام علیکم سب سے پہلے آپ سب کو رمضان المبارک کی آمد بہت مبارک ہو رمضان میں تراویح کی  بہت اہمیت ہے اور آج اس کی اہمیت اور لوگوں میں جو غلط فہمیاں ہیں انکے بارے میں آپ کو معلومات دیں گے



✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨


*سلسلہ نمبر4  *تراویح کی فضیلت اور اس کی شرعی حیث*




📿 *تراویح کی فضیلت اور اس کی شرعی حیثیت:*
1⃣ رمضان المبارک میں تراویح کی بڑی ہی فضیلت ہے، حضور اقدس ﷺ نےاس کو سنت قرار دیا ہے، اس لیے حضراتِ فقہاء فرماتے ہیں کہ ہر عاقل بالغ مرد اور عورت کے ذمّے تراویح سنتِ مؤکدہ ہے۔
(سنن النسائی حدیث: 2210، فیض القدیر حدیث: 1660، اعلاء السنن، رد المحتار مع در مختار)

⭕ *تنبیہ:* اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح مَردوں کے لیے تراویح پڑھنے کا اہتمام ضروری ہے اسی طرح خواتین کے لیے بھی تراویح کا اہتمام ضروری ہے،بعض خواتین تراویح کو اہمیت نہیں دیتیں بلکہ اس کو ترک کرنے کے لیے معمولی بہانوں کا بھی سہارا لیتی ہیں، ان کا یہ طرزِ عمل ہرگز درست نہیں۔
2⃣ تراویح چوں کہ سنتِ مؤکدہ ہے، اس لیے بلا عذر تراویح چھوڑتے رہنا گناہ ہے۔


(رد المحتار، امداد الفتاویٰ)

📿 *تراویح کا وقت:*

1⃣ یکم رمضان المبارک کی رات سے تراویح کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور ماہِ رمضان کی آخری رات تک رہتا ہے، یعنی ماہِ رمضان کی ہر رات تراویح پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے۔
2⃣ تراویح کا وقت عشا کی فرض نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور فجر تک رہتا ہے، فجر کا وقت داخل ہوتے ہی تراویح کی نماز کا وقت ختم ہوجاتا ہے، اس لیے اگر کسی شخص نے فجر سے پہلے تراویح نہیں پڑھی تو فجر کے بعد اس کی قضا نہیں، البتہ بلا عذر تراویح ترک کرنے پر استغفار کرنا چاہیے۔
3⃣ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ڈیوٹی یا کسی اور عذر کی وجہ سے عشا کی نماز کے فورًا بعد تراویح ادا نہ کرسکے تو اسے چاہیے کہ صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک جب بھی موقع ملے تو تراویح ادا کرنے کی کوشش کرے اور پوری رات میں اس قدر وقت نکال لے کہ جس میں تراویح ادا کی جاسکتی ہو۔
4⃣ جس شخص سے تراویح کی دو یا زیادہ رکعات چلی جائیں تو اگر نمازِ وتر سے پہلے ان کو ادا کرنے کا موقع  مل رہا ہو تو نمازِ وتر سے پہلے ہی ادا کرلے ورنہ تو نمازِ وتر کے بعد فجر سے پہلے پہلے کسی بھی وقت ادا کرلے۔
(رد المحتار، فتاویٰ بزازیہ، الاختیار، فتح القدیر، فتاویٰ قاضی خان، بدائع الصنائع، فتاویٰ محمودیہ)
5️⃣ تراویح ادا کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ عشا کی نماز فاسد ہوچکی ہے تو ایسی صورت میں عشا  کی نماز کے ساتھ ساتھ تراویح بھی دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔ (الحلبی الکبیر، فتاویٰ محمودیہ)

📿 *تراویح کی رکعات اور ان کے احکام:*

1⃣ تراویح بیس رکعات ہی سنت ہے، حضور اقدس ﷺ نے بیس رکعات تراویح ادا فرمائی ہیں، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث شریف موجود ہے کہ:
7774: حَدَّثَنَا يَزِيْدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيْمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّيْ فِيْ رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
بیس رکعات تراویح حضرات صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے اور یہی چاروں ائمہ کرام اور جمہور امت کا مذہب ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تراویح آٹھ رکعات نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے، بلکہ بیس رکعات سے کم تراویح پڑھنا سنت ہی نہیں، اس لیے آٹھ رکعات تراویح پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(اعلاء السنن، رد المحتار مع درمختار، فتاویٰ محمودیہ)
2⃣ تراویح دو دو رکعات پڑھنا سنت ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ دو دو رکعات کرکے تراویح ادا کی جائیں، البتہ اگر کوئی شخص ایک ساتھ چار رکعات تراویح ادا کرلے تب بھی جائز ہے۔ (بدائع الصنائع، تبیین الحقائق)

📿 *تراویح میں چار رکعات کے بعد وقفہ کرنے کا حکم:*

1⃣ ہر چار رکعات تراویح کے بعد  وقفہ کرنا مستحب ہے کہ اتنی مقدار وقفہ کیا جائے جتنی دیر میں یہ چار رکعات ادا کی ہیں، البتہ اگر مقتدی حضرات کی تنگدلی کی وجہ سے تھوڑی دیر وقفہ کرلیا جائے تب بھی جائز ہے، اور اگر کوئی بالکل وقفہ ہی نہ کرے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
2⃣ اس وقفے میں شریعت نے کوئی خاص عمل سنت یا لازم قرار نہیں دیا، بلکہ ہر ایک کو اختیار ہے: چاہے تو ذکر کرے، دُعا کرے، استغفار کرے، درود شریف پڑھےیا ویسے ہی خاموش رہے؛ یہ سب جائز ہے، اور بعض اہلِ علم نے اس دعا کا بھی ذکر فرمایا ہے:


«سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، لَا إله إلَّا اللہُ نَسْتَغْفِرُ اللهَ، نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ».
البتہ یہ یاد رہے کہ تراویح کے وقفے میں اس دعا کا پڑھنا قرآن وسنت سے ثابت نہیں، اس لیے اس کو سنت قرار دینا مشکل ہے، اسی طرح اس کو دعائے تراویح یا تسبیحِ تراویح کہنا بھی مشکل ہے۔ آجکل بہت سے لوگ اس کو دعائے تراویح یا تسبیحِ تراویح کے عنوان سے شائع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں جس کی وجہ سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، اس لیے یہ قابلِ اصلاح بات ہے، البتہ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد وثنا پر مشتمل ہے اس لیے اگر کوئی اسے پڑھنا چاہے تو درست ہے۔ (بدائع، رد المحتار، تحفہ رمضان افاداتِ حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ)

📿 *نمازِ تراویح کے ثبوت سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ:*

نمازِ تراویح سے متعلق بعض لوگ یہ مغالطہ دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ نمازِ ترایح کا ثبوت قرآن وسنت سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو تہجد کی نماز ہے، اس طرح وہ تراویح کی نماز کی جداگانہ حیثیت کا انکار کرتے ہیں، جبکہ بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بیس رکعات نمازِ تراویح حضور اقدس ﷺ سے ثابت نہیں، بلکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایجاد کردہ عمل یا ذاتی فیصلہ ہے، اس لیے یہ سنت نہیں۔

ذیل میں ان دو پہلوؤں سے متعلق غلط فہمی کے ازالے کے لیے چند روایات ذکر کی جاتی ہیں۔ 

📿 *نمازِ تراویح احادیث مبارکہ کی روشنی میں:*

1⃣ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں کو قیام کیا تو اس کے پچھلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
☀ صحیح بخاری میں ہے:
2008- عَن ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ لِرَمَضَانَ: مَنْ قَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. (بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)
اس حدیث میں رمضان میں راتوں کی عبادت کی خصوصیت کے ساتھ ترغیب دی گئی ہے، جس سے تراویح کا ثبوت واضح ہے، جیسا کہ امت کے جلیل القدر محدث امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں بھی اس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اورصحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے کہ ‘‘باب التَّرْغِيبِ فِى قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ’’ کہ قیامِ رمضان یعنی تراویح کی ترغیب کا بیان، گویا کہ امام نووی رحمہ اللہ یہی فرمانا چاہتے ہیں کہ اس حدیث میں قیامِ رمضان سے خصوصیت کے ساتھ تراویح مراد ہے۔

▪ اس تفصیل سے ان متجددین حضرات کا بھی بخوبی جواب ہوجاتا ہے جو کہ سمجھتے ہیں کہ تراویح امت میں کوئی نماز ہی نہیں کیوں کہ جب امام نووی رحمہ اللہ تراویح کا لفظ استعمال فرما رہے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تراویح امت میں ایک معروف نام رہا ہے جس سے ہر ایک واقف تھا، اور امام نووی رحمہ اللہ کی اس بات کی پوری امت میں کسی نے تردید نہیں کی، جو اس بات سے اتفاق کی واضح دلیل ہے۔ظاہر ہے کہ امت کے جلیل القدر ائمہ کی تشریحات کو ترک کرکے دورِ حاضر کے ان متجددین حضرات کی بات کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟؟

1815 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ». (صحيح مسلم، باب التَّرْغِيبِ فِى قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ)

اسی طرح امت کے دیگر جلیل القدر محدثین نے بھی اس حدیث سے تراویح ہی مراد لی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: اس حدیث میں قیامِ رمضان سے تراویح مراد ہے جس کے مستحب (یعنی سنت ہونے) پر علماء کا اتفاق ہے۔ تراویح پر اہل علم کے اتفاق سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ تراویح ایک مستقل نماز ہے، جس کو اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔
☀ شرح مسلم للنووی:
قوله ﷺ: «من قام رمضان إيمانا واحتسابا» معنى «إيمانا»: تصديقا بأنه حق مقتصد فضيلته، ومعنى «احتسابا»: أن يريد الله تعالى وحده لا يقصد رؤية الناس ولا غير ذلك مما يخالف الإخلاص، والمراد بقيام رمضان صلاة التراويح، واتفق العلماء على استحبابها.

2⃣ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض قرار دیے ہیں جبکہ میں نے تمھارے لیے رمضان کی راتوں کو قیام سنت قرار دیا ہے۔
☀ سنن النسائی میں ہے کہ:
2209- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ سَمِعَهُ أَبُوكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ لَيْسَ بَيْنَ أَبِيكَ وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَحَدٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ: نَعَمْ، حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْكُمْ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ». 
یہ حدیث بھی تراویح کی نماز کا واضح ثبوت ہے کیوں کہ اس میں خصوصیت کے ساتھ قیامِ رمضان کو سنت قرار دیا گیا ہے اور یہی ہمارا موقف ہے کہ تراویح سنت ہے۔ جبکہ تہجد کے بارے میں احادیث میں ایسی کوئی صراحت نہیں ملتی، اس لیے علمائے امت نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے۔


3⃣ حضرت عمرو بن مرّۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اقدسﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اگر میں اللہ کی توحید اور آپ کی رسالت کی گواہی دوں، پانچ وقت نماز ادا کیا کروں، زکوۃ ادا کیا کروں، رمضان کے روزے رکھا کروں اور رمضان کی راتوں کو قیام یعنی عبادت کیا کروں تو کن لوگوں میں میرا شمار ہوگا؟ تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ صدیقین اور شہدا میں سے۔
☀ صحیح ابن حبان میں ہے کہ:
3438- عن عيسى بن طلحة قال: سمعت عمرو بن مرة الجهني قال: جاء رجل إلى النبي ﷺ فقال: يا رسول الله، أرأيت إن شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الصلوات الخمس وأديت الزكاة وصمت رمضان وقمته فممن أنا؟ قال: «من الصديقين والشهداء».
اس حدیث مبارک میں رمضان کی راتوں کے قیام کو مستقل طور پر ذکر فرما کر تراویح کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے۔
4⃣ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور اقدس ﷺ کے ساتھ رمضان کی تئیسویں شب کو تہائی رات تک نماز ادا کی، پھر پچیسویں شب کو آدھی رات تک نماز ادا کی، پھر ستائیسویں شب کو رات کے آخری پہر تک نماز ادا کی حتی کہ ہمیں سحری کا وقت ختم ہوجانے کا اندیشہ ہونے لگا۔
☀ مستدرک حاکم میں ہے: 
1608 - أخبرنا عبد الله بن محمد البلخي ببغداد: حدثنا أبو إسماعيل السلمي: حدثنا عبد الله بن صالح: حدثني معاوية بن صالح: حدثني أبو طلحة بن زياد الأنصاري قال: سمعت النعمان بن بشير على منبر حمص يقول: قمنا مع رسول الله ﷺ في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين إلى ثلث الليل ثم قمنا معه ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل ثم قمنا معه ليلة سبع وعشرين إلى نصف الليل ثم قمنا معه ليلة سبع وعشرين حتى ظننا أن لا ندرك الفلاح، وكنا نسميها الفلاح و أنتم تسمون السحور.

یہ حدیث نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث صحیح ہے اور امام بخاری کی شرائط کے مطابق ہے۔اور اس میں واضح دلیل ہے کہ مساجد میں ادا کی جانے والی تراویح کی نماز سنت ہے۔
هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجه، وفيه الدليل الواضح أن صلاة التراويح في مساجد المسلمين سنة مسنونة، وقد كان علي بن أبي طالب يحث عمر رضي الله عنهما على إقامة هذه السنة إلى أن أقامها.
یہ حدیث اور اس کے متعلق ایک جلیل القدر امام کی تصریح بھی تراویح کی نماز کا واضح ثبوت ہے۔ 

📿 *بیس رکعات تراویح کا ثبوت:*
ماہِ رمضان کی راتوں میں بیس رکعات تراویح کا ثبوت حضور اقدس ﷺ سے بھی ہے اور اکابر صحابہ کرام سے بھی، اس سے جہاں تراویح کا ثبوت ہوتا ہے وہیں بیس رکعات کا بھی ثبوت ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

🌼 *حضور اقدس ﷺ سے بیس رکعات تراویح کا ثبوت:*

1⃣ *حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت:*
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ماہِ رمضان میں بیس رکعات (تراویح) اور نمازِ وتر پڑھتے تھے۔
☀ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ:
7774- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
☀ السنن الکبریٰ للبیہقی میں ہے:
4799- أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِىُّ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِىٍّ الْحَافِظُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِى مُزَاحِمٍ: حَدَّثَنَا أَبُو شَيْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِىُّ ﷺ يُصَلِّى فِى شَهْرِ رَمَضَانَ فِى غَيْرِ جَمَاعَةٍ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
☀ المعجم الاوسط للطبرانی میں ہے کہ:
798- حدثنا أحمد بن يحيى الحلواني قال: حدثنا علي بن الجعد قال: حدثنا أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن الحكم بن عتيبة عن مقسم عن بن عباس: أن النبي ﷺ كان يصلي في رمضان عشرين ركعة سوى الوتر.
☀ المعجم الکبیر میں ہے:
12102- حدثنا محمد بن جعفر الرازي ثنا علي بن الجعد ثنا أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس قال: كان النبي ﷺ يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر.
☀ مسند عبد بن حمید میں ہے کہ:
653 - حدثني أبو نعيم قال حدثني أبو شيبة عن الحكم عن مقسم عن بن عباس قال : كان رسول الله ﷺ يصلي في رمضان عشرين ركعة ويوتر بثلاث.
☀ کتاب: جزء من حديث أبي الحسن محمد بن طلحة النعالي میں ہے کہ:
33- حدثنا أبو حفص عمر بن أحمد بن محمد بن حمة الخلال: حدثنا حامد بن محمد البلخي: حدثنا منصور بن أبي مزاحم: حدثنا شيبة عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس قال: كان رسول الله ﷺ يصلي في شهر رمضان عشرين ركعة والوتر .

2⃣ *حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہما کی روایت:*
حضور اقدس ﷺ رمضان کی ایک رات تشریف لائے اور صحابہ کو چوبیس رکعات (یعنی چار فرض اور بیس تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھائی۔
☀ تاریخ جرجان میں ہے کہ:
556- أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد بن عبد الله الفقيه الشافعي الزاهد جرجاني كان يعرف بأبي الحسن القصري ينزل بباب الخندق وتوفي في الجامع يوم الجمعة عند المحراب العتيق بعد الصلاة يوم عاشوراء سنة ثمان وستين وثلاثمائة روى عن عبد الرحمن بن عبد المؤمن وعاصم بن سعيد وأحمد بن عبد الكريم والبغوي وابن صاعد وابن أبي داود وغيرهم: حدثنا أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد القصري الشيخ الصالح رحمه الله: حدثنا عبد الرحمن بن عبد المؤمن العبد الصالح قال: أخبرني محمد بن حميد الرازي: حدثنا عمر بن هارون: حدثنا إبراهيم بن الحناز عن عبد الرحمن عن عبد الملك بن عتيك عن جابر بن عبد الله قال: خرج النبي ﷺ ذات ليلة في رمضان فصلى الناس أربعة وعشرين ركعة وأوتر بثلاثة. 
ان احادیث سے تراویح ہی ثابت ہوتی ہے اور یہی مطلب امت کے جمہور اہل علم نے مراد لیا ہے، جبکہ اس سے تہجد کسی نے بھی مراد نہیں لیا۔

📿 *بیس رکعات تراویح کی روایات کی اسنادی حیثیت:*
ماقبل میں بیان شدہ احادیث معتبر اور قابلِ قبول ہیں جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1⃣ ان احادیث کے تمام راوی معتبر اور قابلِ اطمینان ہیں، اور جن راویوں پر کلام کیا جاتا ہے وہ راوی بھی معتبر ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: اعلاء السنن۔
2⃣ ان احادیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے کہ امت نے ان کو قبول کیا ہے اور انھی کے مطابق امت کا عمل رہا ہے حتی کہ چاروں ائمہ کرام کا عمل بھی انھی پر رہا ہے۔ اور اصولِ حدیث میں سے ایک معتبر اصول یہ ہے کہ جب کسی حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے اور امت کا عمل اسی کے مطابق ہوجائے تو وہ صحیح شمار ہوتی ہے اگرچہ وہ سند کے اعتبار  سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو، بلکہ تواترِ عملی کی وجہ سے اس کی سند سے بحث ہی نہیں کی جاتی۔ دیکھیے تدریب الراوی ودیگر کتب اصول حدیث۔ گویا کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہو لیکن امت کے تلقی بالقبول اور تواتر عملی کی وجہ سے وہ حدیث معتبر اور قابل قبول قرار پاتی ہے، جیسا کہ جامع الترمذی سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے متعدد احادیث پر ضعف کا حکم بھی لگایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، یا: وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ، جس کا معنی ہی یہی ہوتا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن صحابہ وتابعین میں سے اکثر اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔ اس سے ان حضرات کی غلطی کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے جو حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے یا معتبر ہونے اور نہ ہونے کا سارا دارومدار سند کو بناتے ہیں۔
3⃣ ان احادیث کی تائید حضرات خلفائے راشدین اور حضرات صحابہ کرام کے عمل  سے بھی ہوتی ہے کہ انھوں نے بھی بیس رکعات تراویح ادا فرمائی ۔

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

Post a Comment

0 Comments