Subscribe Us

نکاح کرنے کا شرعی حکم،نکاح کے لیے مہینے کا انتخاب،سارے مہینے اللہ ہی کے ہیںnikah Ka shrai hukum

نکاح کرنے کا شرعی حکم



🌻 *عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی درمیانی مدت میں نکاح کرنے کا شرعی حکم*


 📿 *کسی مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھنے کا غیر شرعی نظریہ:*

ہمارے معاشرے میں ماہ محرم، ماہِ صفر اور اسی طرح عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی درمیانی مدت یعنی ماہِ شوال، ماہِ ذو القعدہ اور ماہِ ذو الحجہ کے ابتدائی ایام میں نکاح کرنے کو معیوب اور غلط سمجھا جاتا ہے بلکہ ان مہینوں میں نکاح کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کی تاریخ طے کرنے سے پہلے باقاعدہ ان مہینوں پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اگر کہیں ان مہینوں میں نکاح کی تاریخ آرہی ہو تو بد فالی اور بد شگونی لیتے ہوئے اسے تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ نحوست سے حفاظت ہوسکے اور شادی کامیاب رہے۔ مہینوں کو منحوس قرار دینے کے معاملے میں علاقوں اور قوموں کے نظریات بھی باہم مختلف ہیں کہ مختلف قومیں مختلف مہینوں کو منحوس قدیتی ہیں۔

ایسے بے بنیاد نظریات وتوہمات میں عمومًا خواتین زیادہ مبتلا ہوتی ہیں، اس لیےاس معاملے میں بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دخل اندازی اور اصرار کرتی ہیں اور بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ نکاح کی تاریخ ان مہینوں میں نہ آنے پائے۔ افسوس کہ آج کا مسلمان دین اسلام کی تعلیمات سے کس قدر بے خبر ہے!!


اسلیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس سے متعلق شریعت کی تعلیمات کو سمجھے تاکہ معاشرے میں رائج یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔ ذیل میں اس غلط فہمی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

📿 سال کے تمام مہینے اللہ ہی کے ہیںں

یہ قمری یعنی اسلامی سال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اللہ ہی نے اسے بنایا اور مقرر فرمایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتے ہیں:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِي كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡأَرۡضَ مِنۡهَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ ۚذٰلِكَ الدِّينُ الۡقَيِّمُۚ فَلَا تَظۡلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمۡۚ وَقٰتِلُواالۡمُشۡرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقٰتِلُونَكُمۡ كَآفَّةًۚ وَاعۡلَمُوٓا أَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِينَ (36)

▪ *ترجمہ:*

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)

اس آیت مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے اسلامی سال اور اس کےمہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینےحرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو اَشْہُرُ الْحُرُمکہا جاتا ہے، یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جس سے ان چار مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ: زمانہ اب  اپنی اُسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا (اس ارشاد سے مشرکین کے ایک غلط نظریے اور طرزِ عمل کی تردید مقصود ہے جس کا ذکر اسی سورتِ توبہ آیت نمبر 37 میں موجود ہے۔)، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت (،عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں یعنی: ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔

3197- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «اَلزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا: أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ».


▪ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی یاد رہے کہ حُرمت اور عظمت والےان چار مہینوں کے خصوصی تذکرے سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ان سے متعلق نحوست، بد فالی اور بد شگونی کے تمام خیالات وتوہمات غلط ہیں۔


📿 *سال کے مہینوں کے احکامات بھی اللہ ہی کی طرف سے ہیں:*

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ قمری اور اسلامی سال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اللہ ہی نے اسے بنایا اور مقرر فرمایا ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی سال بھر کے احکامات کا نازل کرنے والا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کے ذریعے قرآن وسنت کی صورت میں امت کو سال بھر کے احکامات وتعلیمات بیان فرمادیے ہیں، ان احکامات میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔


📿 *کسی مہینے میں شادی کو ناجائز اور غلط قرار دینے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے:*

کس مہینے میں شادی جائز ہے اور کس میں ناجائز ؛ یہ طے کرنے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے کہ وہی حاکم ہے، اس لیے بندوں کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ دین میں اپنی طرف سے  اضافہ کرتے ہوئے کسی مہینے میں شادی کو معیوب یا منحوس قرار دیں۔ اس لیے اس معاملے میں بھی شریعت ہی کی پیروی کی جائے گی۔


📿 *کسی مہینے میں شادی کرنے کو معیوب یا غلط سمجھنا دین میں زیادتی ہے:*

جب اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کے ذریعے قرآن وسنت کی صورت میں امت کو سال بھر کے احکامات وتعلیمات بیان فرمادیے ہیں تو ان تعلیمات کی رُو سے سال کے کسی بھی مہینے اور کسی بھی تاریخ کو شادی کی ممانعت نہیں، بلکہ ہر مہینے میں شادی کرنا جائز ہے، اس لیے کسی مہینے میں شادی بیاہ کو غلط، منحوس یا معیوب سمجھنا دین میں اپنی طرف سے زیادتی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ قرآن وسنت کی رُو سے سنگین جرم ہے۔


📿 *کسی مہینے میں شادی کرنے کو معیوب یا غلط سمجھنا بِلا دلیل ہے:*

ساتھ میں یہ واضح رہے کہ کسی مہینے میں شادی بیاہ کو غلط، منحوس یا معیوب سمجھنا ایک حکم شرعی کے زمرے میں آتا ہے اور حکمِ شرعی کے لیے کوئی معتبر شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ نحوست کا یہ نظریہ بلا دلیل ہے جس کا قرآن وسنت اور شرعی دلائل سے کوئی ثبوت نہیں۔


📿 *اسلام میں نحوست کا تصور:*

اسلام میں کسی دن، کسی مہینے، کسی سال یا کسی چیز کی نحوست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، البتہ نحوست صرف گناہ میں ہے، ساری نحوستیں اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، افسوس کہ آج کا مسلمان دنوں اور مہینوں کو نحوست زدہ قرار دے کر ان میں شادی سے تو گریز کرلیتا ہے لیکن شادیوں میں اللہ کی نافرمانی نہیں چھوڑتا جو کہ نحوست کی اصل وجہ ہے!! شیطان نے نحوست کے حقیقی اسباب ووجوہات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ کرلی ہیں جن میں ہم مبتلا ہیں، اور اللہ کو ناراض کرکے شادی خانہ آبادی کی بجائے شادی خانہ بربادی کا سامان مہیا کیے جاتے ہیں!! شیطان نے ہماری نافرمانیوں کو کس قدر مزیّن کرکے پیش کیا ہے!! کس قدر شیطان نے گناہوں کی سنگینی دِلوں سے مٹا دی ہیں!! اللہ کی نافرمانی کس قدر ہلکی چیز تصور کی جاتی ہے!! اس لیے شادیوں میں نحوست سے بچنا ہو اور شادی کو کامیاب بنانا ہو  تو اللہ کی نافرمانی سے بچیے اور شادی سنت کے مطابق کیجیے!!

☀ صحیح بخاری میں ہے:

5757- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَن النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:«لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ».

▪ *ترجمہ:* حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: مرض کا اللہ کےحکم کے بغیر دوسرےکو لگنا، بدشگونی، مخصوص پرندے کی بدشگونی اور صفر کی نحوست؛ یہ ساری باتیں بے بنیاد ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

یہ حدیث یقینًا متعدد غلط فہمیوں کی اصلاح کے لیے کافی ہے۔


📿 *نکاح میں بلاوجہ تاخیر ممنوع ہے:*

نکاح ایک حکمِ شرعی ہے جو کہ حضور اقدس ﷺ کی محبوب سنت ہے،  ایک تو اس کے سنت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے میں بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے، دوم یہ کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا: ایک تو نماز میں تاخیر نہ کرنا جب اس کا وقت ہوجائے، دوم: نمازِ جنازہ میں تاخیر نہ  کرنا جب وہ تیار ہوجائے، سوم: غیر شادی شدہ لڑکی کے نکاح میں تاخیر نہ کرنا جب اس کے ہم پلہ کوئی مناسب رشتہ مل جائے۔

☀ جیسا کہ مستدرک حاکم میں ہے:

2743- أَخْبَرَنِي الشَّيْخُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ: أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ:ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «ثَلَاثٌ يَا عَلِيُّ لَا تُؤَخِّرْهُنَّ: الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدَتْ كُفْؤًا».

اس لیے جب نکاح تیار ہو تو پھر نحوست کے اس بے بنیاد نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مہینوں کی وجہ سے اس میں تاخیر کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ عمل ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔


📿 *شادی سال بھر میں کسی بھی روز ممنوع، منحوس یا معیوب نہیں:*

خلاصہ یہ ہوا کہ شرعی اعتبار سے شادی سال بھر میں کسی بھی روز منع نہیں بلکہ جب بھی کرنی ہو اس کے لیے سال کے تمام ایام میں سے کسی بھی دن کا انتخاب کیا جاسکتا ہے، اس لیے جو لوگ محرم، صفر ، شوال یا کسی بھی مہینے میں نکاح غلط اور منحوس سمجھتے ہیں ان کی یہ سوچ بے بنیاد ہے کیونکہ قرآن و سنت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں، ایسا نظریہ رکھنا دین کے سراسر خلاف ہے۔ 


ماقبل کی تفصیل ان غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے کافی اور شافی ہے جس سے سال بھر میں شادی کرنا درست قرار پاتا ہے، البتہ ارادہ ہوا کہ انفرادی طور پر بھی بعض ماہِ شوال اور ماہِ ذو  القعدہ سے متعلق تذکرہ کرلیا جائے تاکہ یہ اس غلط نظریے کی اصلاح میں مزید مفید ثابت ہوسکے۔


📿 *ماہِ شوّال میں شادی کا حکم:*

ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ماہِ شوال  میں بھی نکاح کی کوئی ممانعت نہیں بلکہ یہ تو نکاح کے لیے موزوں مہینہ ہے، اس کی وجوہات یہ ہیں:

1⃣ ماہِ شوال ماہِ رمضان کے متصل بعد آنے کی وجہ سے اس مقدس ماہ کا پڑوسی ہے، یہ بھی کسی درجے میں ماہِ شوال کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔

2⃣ ماہِ شوال میں اللہ تعالیٰ نے لیلۃ الجائزہ، صدقۃ الفطر، عید الفطر، نمازِ عید الفطر اور ماہِ شوال کے چھ روزوں جیسے مبارک اعمال وامور رکھے ہیں، جن سے اس ماہ کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔

3⃣ ماہِ شوال حج کے مبارک مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے، یہ بھی اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔

4⃣ اس مہینے میں خود حضور اقدس ﷺ کا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا اور رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی اور اس سے زیادہ مبارک نکاح اور کس کا ہوگا!! چنانچہ  اسی غلط نظریے کی تردید کرتے ہوئے یہی برکت والی بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ارشاد فرمائی ہے بلکہ اسی بنا پر وہ ماہِ شوال میں نکاح کو پسند فرماتی تھی۔

☀ صحیح مسلم میں ہے:

3548- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ -وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ۔ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِى شَوَّالٍ وَبَنَى بِى فِى شَوَّالٍ، فَأَىُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللهِ ﷺ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّى. قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِى شَوَّالٍ.

(باب اسْتِحْبَابِ التَّزَوُّجِ وَالتَّزْوِيجِ فِى شَوَّالٍ وَاسْتِحْبَابِ الدُّخُولِ فِيهِ)

☀ شرح مسلم للنووی میں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

قَوْله: (عَنْ عَائِشَة رَضِيَ الله عَنْهَا قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي رَسُول الله ﷺ فِي شَوَّال، وَبَنَى بِي فِي شَوَّال، فَأَيّ نِسَاء رَسُول الله ﷺ كَانَ أَحْظَى عِنْده مِنِّي؟ قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَة تَسْتَحِبّ أَنْ تُدْخِل نِسَاءَهَا فِي شَوَّال)، فِيهِ اِسْتِحْبَاب التَّزْوِيج وَالتَّزَوُّج وَالدُّخُول فِي شَوَّال، وَقَدْ نَصَّ أَصْحَابنَا عَلَى اِسْتِحْبَابه، وَاسْتَدَلُّوا بِهَذَا الْحَدِيث، وَقَصَدَتْ عَائِشَة بِهَذَا الْكَلَام رَدّ مَا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّة عَلَيْهِ، وَمَا يَتَخَيَّلهُ بَعْض الْعَوَامّ الْيَوْم مِنْ كَرَاهَة التَّزَوُّج وَالتَّزْوِيج وَالدُّخُول فِي شَوَّال، وَهَذَا بَاطِل لَا أَصْل لَهُ، وَهُوَ مِنْ آثَار الْجَاهِلِيَّة، كَانُوا يَتَطَيَّرُونَ بِذَلِكَ لِمَا فِي اِسْم شَوَّال مِنْ الْإِشَالَة وَالرَّفْع.


5️⃣ حضور اقدس ﷺ کا اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی ماہِ شوال ہی میں ہوا تھا۔

☀ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر:

وأم سلمة بنت أبي أمية بن المغيرة المخزومية واسمها هند تزوجها سنة أربع في شوال.


جبکہ اسد الغابہ کے مطابق ان کا نکاح ماہِ شعبان میں ہوا۔


📿 *ماہِ ذو القعدہ میں نکاح کرنے کا حکم:*

جہاں تک ماہِ ذو القعدہ میں نکاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں بھی شادی بیاہ کی کوئی ممانعت نہیں جس کی وجوہات یہ ہیں کہ:

1⃣ ماہِ ذو القعدہ اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نےیہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عزت، احترام، فضیلت اور اہمیت عطا فرمائی ہے، جیسا کہ ماقبل میں تفصیل بیان ہوچکی، اس لیے جب ماہِ ذو القعدہ کی عظمت وحرمت واضح ہوگئی تو اس کی عظمت اور برکت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ مہینہ شادی کے لیے نہایت ہی موزوں اور مناسب مہینہ ہے تاکہ اس کی برکت سے شادی بھی بابرکت بنے، جیسا کہ مختلف مقامات کی برکتیں ہوتی ہیں اسی طرح مہینوں اور ایام کی برکتیں بھی ہوتی ہیں، تعجب ہے کہ اس عظمت اور برکت والے مہینے میں شادی کو غلط یا منحوس کیسے سمجھا جاتا ہے!!

2⃣ ماہِ ذو القعدہ حج کے مبارک مہینوں میں سے دوسرا مہینہ ہے، یہ بھی اس ماہ کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔

3⃣ حضور اقدس ﷺ نے تقریبا تین عمرے اس ماہ میں ادا فرمائے، ظاہر ہے کہ یہ اس ماہ کے لیے کتنا بڑا شرف ہے! (اسلامی شادی از حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ)

4⃣ ساتھ میں یہ بھی یاد رہے کہ بعض اہلِ علم کے مطابق ماہِ ذو القعدہ میں حضور اقدس ﷺ کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا۔ 

☀ جیسا کہ البدایہ والنہایہ میں ہے:

تزويجه عليه السلام بزينب بنت جحش:

ابن رِئَابِ بْنِ يَعْمَرَ بْنِ صَبِرَةَ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَبِيرِ بْنِ غَنْمِ بْنِ دُودَانَ بْنِ أَسَدِ بْنِ خُزَيْمَةَ الْأَسَدِيَّةِ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ وَهِيَ بِنْتُ أُمَيْمَةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمَّةِ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَكَانَتِ قَبْلَهُ عِنْدَ مَوْلَاهُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَتَادَةُ وَالْوَاقِدِيُّ وَبَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ: تَزَوَّجَهَا عَلَيْهِ السَّلَامُ سَنَةَ خَمْسٍ، زَادَ بَعْضُهُمْ: فِي ذِي الْقَعْدَةِ.


✍🏻۔

Post a Comment

0 Comments