🌻 *قُربانی کا حکم مع قربانی نہ کرنے پر وعید*
▪ *سلسلہ مسائلِ قربانی نمبر:* 5️⃣
📿 *قربانی کا حکم:*
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قربانی واجب ہے اور یہی راجح قول ہے، جبکہ دیگر متعدد ائمہ کرام کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے ذکر ہوگی ان شاء اللہ۔
☀ البحر الرائق میں ہے:
قال رَحِمَهُ اللهُ: (تَجِبُ على حُرٍّ مُسْلِمٍ مُوسِرٍ مُقِيمٍ على نَفْسِهِ لَا عن طِفْلِهِ شَاةٌ أو سُبُعُ بَدَنَةٍ فَجْرَ يَوْمِ النَّحْرِ إلَى آخِرِ أَيَّامِهِ) يَعْنِي صِفَتُهَا أنها وَاجِبَةٌ، وَعَنْ أبي يُوسُفَ: أنها سُنَّةٌ، وَذَكَرَ الطَّحَاوِيُّ أنها سُنَّةٌ على قَوْلِ أبي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ، وهو قول الشافعي، لهم قَوْلُهُ ﷺ: إذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أحدكم أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عن شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَجَمَاعَةٌ أخرى، وَالتَّعْلِيقُ بِالْإِرَادَةِ يُنَافِي الْوُجُوبَ، وَلِأَنَّهَا لو كانت وَاجِبَةً على الْمُقِيمِ لَوَجَبَتْ على الْمُسَافِرِ كَالزَّكَاةِ وَصَدَقَةِ الْفِطْرِ؛ لِأَنَّهُمَا لَا يَخْتَلِفَانِ بِالْعِبَادَةِ الْمَالِيَّةِ. وَدَلِيلُ الْوُجُوبِ قَوْلُهُ ﷺ: من وَجَدَ سَعَةً ولم يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وابن مَاجَهْ، وَمِثْلُ هذا الْوَعِيدِ لَا يَلْحَقُ بِتَرْكِ غَيْرِ الْوَاجِبِ، وَلِأَنَّهُ عليه الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَمَرَ بِإِعَادَتِهَا من قَوْلِهِ: من ضَحَّى قبل الصَّلَاةِ فَلْيُعِد الْأُضْحِيَّةَ. وَإِنَّمَا لَا تَجِبُ على الْمُسَافِرِ؛ لِأَنَّ أَدَاءَهَا مُخْتَصٌّ بِأَسْبَابٍ تَشُقُّ على الْمُسَافِرِ وَتَفُوتُ بِمُضِيِّ الْوَقْتِ فَلَا يَجِبُ عليه شَيْءٌ لِدَفْعِ الْحَرَجِ عنه كَالْجُمُعَةِ، بِخِلَافِ الزَّكَاةِ وَصَدَقَةِ الْفِطْرِ؛ لِأَنَّهُمَا لَا يَفُوتَانِ بِمُضِيِّ الزَّمَانِ فَلَا يَخْرُجُ.
🌹 *فائدہ برائے اہلِ علم:*
ضمن میں یہ علمی نکتہ بھی اہلِ علم کے لیے مفید ہوگا کہ حنفیہ کے نزدیک قربانی کا وجوب صدقۃ الفطر اور سجدہ تلاوت سمیت دیگر واجبات کے مقابلے میں اخف ہے۔
☀ البحر الرائق میں ہے:
قال الْقُدُورِيُّ: الْوَاجِبُ على مَرَاتِبَ بَعْضُهَا آكَدُ من بَعْضٍ، وَوُجُوبُ سَجْدَةِ التِّلَاوَةِ آكَدُ من وُجُوبِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ، وَصَدَقَةُ الْفِطْرِ وُجُوبُهَا آكَدُ من وُجُوبِ الْأُضْحِيَّةِ. (كتاب الأضحية)
📿 *استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید:*
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس کے پاس وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ (حدیث: 3123)
▪ *اس حدیث سے متعدد امور معلوم ہوتے ہیں:*
1⃣ مذکورہ حدیث شریف میں صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید بیان ہونے سے قربانی کی اہمیت اور تاکید معلوم ہوجاتی ہے۔
2️⃣ صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعیدسے قربانی کے واجب ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے کیوں کہ یہ وعید واجب جیسے احکام ترک کرنے پر ہی وارد ہوسکتی ہے۔ (البحر الرائق)
3⃣ البتہ یہ واضح رہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جو صاحبِ نصاب شخص قربانی نہ کرے تو وہ عید کی نماز پڑھنے بھی نہ آئے یا اس کی نمازِ عید ادا نہیں ہوتی، کیوں کہ نمازِ عید کی درستی اور ادائیگی قربانی کرنے پر موقوف نہیں، بلکہ عید کی نماز ایسے شخص کے ذمے بھی واجب ہے، درحقیقت اس حدیث سے مقصود زجر وتنبیہ اور اظہارِ ناراضگی ہے کہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا شخص اس جرم کی پاداش میں اس قابل ہے ہی نہیں کہ وہ خیر، برکتوں اور رحمتوں پر مشتمل نمازِ عید کے عظیم مبارک اجتماع میں حاضر ہو!
نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود بھی لاعلمی کی وجہ سے یا پھر جان بوجھ کر قربانی نہیں کرتے، اور طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنی شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں تو لاکھوں روپے بے دریغ خرچ کرتے ہیں حتی کہ ایسے امور کے لیے قرض لے کر اس کا بوجھ بھی برداشت کرتے ہیں لیکن جب قربانی کی باری آتی ہے تو طرح طرح کے حیلے بہانے اور عذر پیش کرنے لگتے ہیں! یقینا اللہ خوب جاننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے! وہ خوب جانتا ہے کہ کونسا عذر قبول ہے اور کونسا نہیں! ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عذر اور بہانے پیش کیے جانے کے قابل ہیں؟؟ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں قربانی کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم خوشی خوشی قربانی کی عبادت سرانجام دے سکیں اور قربانی ترک کرنے کی اس سنگین وعید کے حق دار نہ بنیں۔
4⃣ اسی طرح اس حدیث میں ’’وُسعت‘‘ کی قید سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ قربانی ہر ایک پر واجب نہیں بلکہ وُسعت اور استطاعت والے شخص ہی پر واجب ہے، اور صاحبِ وسعت سے مراد صاحبِ نصاب ہونا ہے۔ قربانی کے نصاب کی تفصیل آگے مستقل عنوان کے تحت آرہی ہے ان شاء اللہ۔
☀ سنن ابن ماجہ میں ہے:
3123- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلا يَقْربَنَّ مُصَلَّانَا».
☀ وفي حاشية السندي على سنن ابن ماجه:
قَوْلُهُ: «فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا» لَيْسَ الْمُرَادُ أَنَّ صِحَّةَ الصَّلَاةِ تَتَوَقَّفُ عَلَى الْأُضْحِيَّةِ، بَلْ هُوَ عُقُوبَةٌ لَهُ بِالطَّرْدِ عَنْ مَجَالِسِ الْأَخْيَارِ، وَهَذَا يُفِيدُ الْوُجُوبَ، وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
✍🏻۔۔۔مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
5 ذو القعدہ1441ھ/ 27 جون 2020
03362579499
0 Comments