✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح❄✨
🌻 *صدقۃُ الفِطر: فضیلت، حکم اور نصاب*
▪ *سلسلہ مسائلِ صدقۃ الفطر:* 1️⃣
📿 *صدقۃ الفطر کی حقیقت اور فضیلت:*
ماہِ رمضان المبارک کے اختتام اور ماہِ شوال کے آغاز پر ایک اہم عمل صدقۃ الفطر کا بھی ہے، صدقۃ الفطر کے متعدد فضائل ہیں، جیسے:
▪صدقۃ الفطر کی وجہ سے روزے کی کمی کوتاہی کا ازالہ ہوجاتا ہے جیسا کہ سجدہ سہو کی وجہ سے نماز کی کمی کوتاہی کا ازالہ ہوجاتا ہے۔
▪صدقۃ الفطر کی ادائیگی سے روزے کی قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔
▪صدقۃ الفطر مساکین اور حاجت مندوں کے ساتھ تعاون کرنے اور انھیں خوشیوں میں شریک کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر کو مقرر فرمایا ہے روزے داروں کو بے کار اور بیہودہ باتوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے اور مساکین کو کھلانے (یعنی ان کے ساتھ تعاون کرنے) کے لیے۔ جس نے عید الفطر کی نماز سے پہلے ادا کردیا تو یہ مقبول صدقۃ الفطر ہے اور جس نے عید الفطر کی نماز کے بعد ادا کیا تو پھر یہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔
☀ سنن ابی داود میں ہے:
1611- عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ؛ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِىَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِىَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ. (باب زَكَاةِ الْفِطْرِ)
یعنی عید الفطر کی نماز سے پہلے صدقۃ الفطر کی ادائیگی سنت ہے، اس لیے اس کا اہتمام ہونا چاہیے، مزید تفصیل آگے ذکر ہوگی ان شاء اللہ۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر کی ادائیگی بہت ہی اہمیت اور فضیلت رکھتی ہے اور ویسے بھی اس کی مقدار عمومًا زیادہ نہیں ہوتی، اس لیے اس کے باوجود بھی اس سے محرومی بڑی خیر سے محرومی ہے۔
📿 *صدقۃ الفطر کی ادائیگی کا حکم:*
1⃣ صاحبِ نصاب شخص پر صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہے، اس لیے اس کا اہتمام ضروری ہے اور ویسے بھی اس کی ادائیگی ساقط نہیں ہوتی، اس لیے اگر کسی نے بروقت ادا نہ کیا تو بعد میں بھی اس کی ادائیگی ضروری ہے، حتی کہ اگر موت تک ادائیگی نہ کی تو اس کی وصیت کرنا ضروری ہے۔ البتہ یہ تو حقیقت ہے کہ بروقت ادائیگی کے بڑے فضائل اور فوائد ہیں۔ (رد المحتار ودیگر کتب)
2⃣ جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو اور وہ صدقۃا لفطر ادا کرنا چاہے تو یہ بھی جائز بلکہ اس کے لیے فضیلت کی بات ہے، اس لیے اگر وسعت اور گنجائش ہو تو ایسی صورت میں غیر صاحبِ نصاب کے لیے بھی صدقۃ الفطر کی ادائیگی بہت ہی مفید ہے۔ (مبسوط السرخسی)
📿 *صدقۃ الفطر واجب ہونے کا نصاب:*
زکوٰۃ کی طرح صدقۃ الفطر بھی ہر ایک کے ذمے واجب نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے بھی ایک نصاب مقرر ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1⃣ جس شخص پر زکوٰة فرض ہے اس پر صدقۃ الفطر بھی واجب ہے۔
2⃣ صدقۃ الفطر کا نصاب وہی ہے جو قربانی کا ہے، اس لیے جس شخص پر قربانی واجب ہے اس پر صدقۃ الفطر بھی واجب ہے۔
صدقۃ الفطر کا تفصیلی نصاب بیان کرنے سے پہلے ایک اہم نکتے کی وضاحت ذکر کی جاتی ہے۔
📿 *زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی کے نصاب سے متعلق بعض غلط فہمیوں کا اِزالہ:*
ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی کے نصاب سے متعلق درج ذیل غلط فہمیاں رائج ہیں:
1⃣ بہت سے لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں تو اس کو زکوٰۃ دیناجائز ہے، گویا کہ ان کے نزدیک زکوٰۃ کا مستحق ہونےکے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اس پر زکوٰۃ فرض نہ ہو۔
2⃣ اسی طرح بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے تو صرف اسی پر صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہے، اور جس شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں تو اس پر صدقۃ الفطر اور قربانی بھی واجب نہیں۔
یاد رہے کہ یہ واضح غلط فہمیاں ہیں، کیوں کہ نصاب کو دیکھتے ہوئے زکوٰۃ کے معاملے میں مسلمانوں کے تین طبقات ہیں:
📿 *زکوٰۃ کے نصاب کے اعتبار سے مسلمانوں کے تین طبقات:*
❄ پہلا وہ طبقہ جن پر زکوٰۃ فرض ہے۔
❄ دوسرا وہ طبقہ جن کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے۔
❄ تیسرا وہ طبقہ جن پر زکوٰۃ فرض بھی نہیں اور ان کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز نہیں۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ زکوٰۃ ،صدقۃ الفطر اور قربانی کے نصاب سے متعلق مسلمانوں میں تین طبقے پائے جاتے ہیں:
1️⃣ *پہلا طبقہ:* جن کے پاس زکوٰۃ کا نصاب موجود ہوتا ہے۔
▪ *حکم:* ان کے ذمّے زکوٰۃ بھی فرض ہے، اور اگر صدقۃ الفطر اور قربانی کے ایام میں یہ نصاب موجود ہو تو ان کے ذمّے صدقۃ الفطر اور قربانی بھی واجب ہیں۔
2️⃣ *دوسرا طبقہ:* جن کے پاس زکوٰۃ کا نصاب بھی نہیں ہوتا، اور صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب بھی نہیں ہوتا۔
▪ *حکم:* ان کے ذمّے زکوٰۃ،صدقۃ الفطر اور قربانی میں سے کوئی حکم بھی لازم نہیں ہوتا، یہی وہ طبقہ ہے جن کو زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور صدقاتِ واجبہ دینا جائز ہے۔
3️⃣ *تیسرا طبقہ:* جن کے پاس زکوٰۃ کا نصاب تو نہیں ہوتا البتہ صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب موجود ہوتا ہے۔
▪ *حکم:* ان کے ذمّے زکوٰۃ تو فرض نہیں البتہ صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہیں، یہ وہ طبقہ ہے کہ ان کے لیے بھی زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔
📿 *زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر کےنصاب میں فرق:*
زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ میں تو صرف چار چیزوں یعنی سونا، چاندی، رقم اور سامانِ تجارت کا اعتبار کیاجاتا ہے، جبکہ صدقۃ الفطر میں ان چار چیزوں کےعلاوہ ضرورت سے زائد سامان اور مال کا بھی حساب کیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان چار چیزوں کی وجہ سے صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس کو زکوٰۃ کا نصاب کہا جاتا ہے، لیکن اگر وہ ضرورت سے زائد سامان کی وجہ سے صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس کو صدقۃ الفطر کا نصاب کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔
📿 *مذکورہ تفصیل سے یہ احکام ثابت ہوتے ہیں:*
1⃣ جس شخص کے پاس زکوٰۃ کا نصاب موجود ہے تو اس کے ذمّے زکوٰۃ بھی فرض ہے اور اس کے ذمّے صدقۃ الفطر اور قربانی بھی واجب ہے، اور ایسے شخص کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز نہیں۔
2⃣ جس شخص کے پاس زکوٰۃ کا نصاب تو نہ ہو لیکن صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب ہو تو اس پر زکوٰۃ تو فرض نہیں البتہ اس کے ذمّے صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہے، اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔
3⃣ زکوٰۃ صرف اسی شخص کو دینا جائز ہے جس کے پاس زکوٰۃ کا نصاب بھی نہ ہو اور صدقۃ الفطر کا نصاب بھی نہ ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ دیتے وقت صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں، بلکہ زکوٰۃ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے پاس صدقۃ الفطر اور قربانی جتنا نصاب ہے یا نہیں۔
امید ہے کہ ان اُصولی باتوں سے متعدد غلط فہمیوں کا اِزالہ ہوسکے گا۔
☀ الجوہرۃ النیرۃ شرح مختصر القدوری میں ہے:
(قَوْلُهُ: وَلَا يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ إلَى مَنْ يَمْلِكُ نِصَابًا مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ) سَوَاءٌ كَانَ النِّصَابُ نَامِيًا أَوْ غَيْرَ نَامٍ، حَتَّى لَوْ كَانَ لَهُ بَيْتٌ لَا يَسْكُنُهُ يُسَاوِي مِائَتَيْ دِرْهَمٍ لَا يَجُوزُ صَرْفُ الزَّكَاةِ إلَيْهِ، وَهَذَا النِّصَابُ الْمُعْتَبَرُ فِي وُجُوبِ الْفِطْرَةِ وَالْأُضْحِيَّةِ، قَالَ فِي «الْمَرْغِينَانِيِّ»: إذَا كَانَ لَهُ خَمْسٌ مِن الْإِبِلِ قِيمَتُهَا أَقَلُّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ يَحِلُّ لَهُ الزَّكَاةُ وَتَجِبُ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا يَظْهَرُ أَنَّ الْمُعْتَبَرَ نِصَابُ النَّقْدِ مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ بَلَغَ نِصَابًا مِنْ جِنْسِهِ أَوْ لَمْ يَبْلُغْ، وَقَوْلُهُ: إلَى مَنْ يَمْلِكُ نِصَابًا بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ النِّصَابُ فَاضِلًا عَنْ حَوَائِجِهِ الْأَصْلِيَّةِ.
خلاصہ یہ کہ جس شخص پر زکوة فرض ہے اس پر تو صدقۃ الفطر واجب ہے ہی لیکن جس شخص کے پاس زکوة کا نصاب تو نہ ہو البتہ صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب موجود ہو تو اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے۔
🌼 *صدقۃ الفطر کا تفصیلی نصاب:*بنیادی طور پرصدقۃ الفطر پانچ چیزوں پر واجب ہوتا ہے:▪سونا۔▪چاندی۔▪سامانِ تجارت۔▪رقم۔▪ضرورت سے زائد سامان۔
ان پانچ چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل صورتوں میں صدقۃ الفطر واجب ہوتا ہے:
1⃣ جس شخص کے پاس صرف سونا ہو، اس کے علاوہ مذکورہ بالا باقی چار چیزوں میں سے کچھ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ (یعنی 87.84 گرام) سونا ہے، جو سونا اس سے کم ہو اس پر صدقۃ الفطر واجب نہیں۔
2⃣ جس شخص کے پاس ان پانچ چیزوں میں سے صرف چاندی، یا صرف سامانِ تجارت، یا صرف رقم ہو تو ایسی صورت میں ان میں سے ہر ایک کا نصاب ساڑھے باون تولہ (یعنی 612.36 گرام) چاندی ہے۔ جو چاندی ساڑھے باون تولے سے کم ہو، اسی طرح جو سامانِ تجارت یا رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہو تو اس پر صدقۃ الفطر واجب نہیں۔
3⃣ جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد سامان ہو تو اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔
4⃣ جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو، لیکن ساتھ ساتھ اس کے پاس کچھ چاندی یا کچھ سامانِ تجارت یا کچھ رقم بھی ہو تو اس صورت میں اگر ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہے تو ان پرصدقۃ الفطر واجب ہے، ورنہ نہیں۔
5️⃣ کسی شخص کے پاس یہ پانچوں چیزیں (یعنی سونا، چاندی، سامانِ تجارت، رقم اور ضرورت سے زائد سامان) ہوں یا ان میں سے بعض ہوں لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی اپنے نصاب تک نہیں پہنچتی ہو تو اس صورت میں ان کو ملا کر ان کی مجموعی قیمت کا حساب لگایا جائے گا، اگر ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہے تو اس شخص پر صدقۃ الفطر واجب ہے، ورنہ نہیں۔
6️⃣ جس شخص کے پاس کچھ سونا یا کچھ رقم ہو اور ساتھ میں ضرورت سے زائد سامان بھی ہو اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو تو اس پر صدقۃ الفطرواجب ہے۔ (جواہر الفقہ، نوادر الفقہ)
☀️ *اہم وضاحت:* ماقبل میں یہ بات بیان ہوچکی کہ جس پر زکوٰۃ فرض ہے اس پر صدقۃ الفطر بھی واجب ہے، اس لیے زیرِ نظر تحریر میں اموالِ زکوٰۃ یعنی سونے، چاندی، رقم اور مالِ تجارت سے متعلق تفصیلات ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن چوں کہ صدقۃ الفطر میں ضرورت سے زائد سامان کا بھی حساب لگایا جاتا ہے اس لیے ذیل میں ضرورت سے زائد سامان کی کچھ تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔
📿 *ضرورت سے زائد سامان سے متعلق وضاحت*
❄ *ضرورت کی چیزیں:*
جو چیزیں ضرورت اور استعمال کی ہیں ان کا تو اعتبار نہیں کیا جاتا جیسے: رہائشی مکان، پہننے کے کپڑے اور جوتے، کھانے پینے کے برتن، ضرورت کی گاڑی، گھریلو ضرورت میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے سلائی اور دھلائی کی مشینیں، پنکھا، فرنیچر، فریج، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون، اسی طرح صنعت وحرفت یعنی پیشے، تجارت اور مزدوری کے آلات و اوزار جیسے درزی کی سلائی مشینیں، فیکٹری کی مشینیں وغیرہ؛ سب ضرورت کی چیزیں ہیں۔
🌹 *مسئلہ:* جو غلّہ یعنی گندم، چاول، گھی، آٹا، چینی اور دیگر کھانے کی چیزیں جو مہینے یا سال بھر کی ضروریات کے لیے رکھا ہوا ہو اور وہ نصاب کے برابر بھی ہو تب بھی وہ ضرورت کی چیزوں میں آتا ہے، اس لیے ان کا بھی حساب نہیں لگایا جاتا۔ (رد المحتار، المحیط البرہانی، فتاویٰ عثمانی، زکوٰۃ کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)
❄ *ضرورت سے زیادہ سامان سے کیا مراد ہے؟*
1⃣ ضرورت سے زائد سامان سے مراد و ہ چیزیں ہیں جو کسی بھی طرح استعمال میں آتی نہ ہوں جیسے:
▪ محض زیب و زینت کے لیے رکھے گئے برتن وغیرہ۔
▪ وہ چیزیں جو پرانی یا خراب ہونے کی وجہ سے ویسے ہی گھروں میں پڑی رہتی ہیں اور قیمت بھی رکھتی ہیں جیسے فالتو مشینیں، فالتو فرنیچر وغیرہ؛ یہ سب چیزیں ضرورت سے زائد ہیں۔
2⃣ اگر کسی کے پاس اپنے گھر کے علاوہ کوئی خالی پلاٹ ہوتو وہ بھی ضرورت سے زائد ہے۔
3⃣ کسی نے اپنا ایک گھر کرایے پر دے رکھا ہو تو اگر اس کا کرایہ گھر کی ضروریات میں استعمال ہوتا ہو تو وہ ضرورت سے زائد نہیں، لیکن اگر وہ کرایہ گھر کی ضرورت سے زائد ہو تو وہ گھر ضرورت سے زائد چیزوں میں شمار ہوگا۔ (بہشتی زیور)
4⃣ کسی شخص کے پاس دو گاڑیاں ہیں، جن میں سے ایک گاڑی ضرورت اور استعمال کی ہے جبکہ دوسری گاڑی استعمال میں نہیں آتی تو وہ بھی ضرورت سے زائد ہے۔
مزید تفصیل کے لیے اہلِ علم حضرات سے رابطہ فرمائیں۔
📿 *قرض، ادھار اور واجب الاداء رُقوم سے متعلق تنبیہ:*
1⃣ صدقۃ الفطر کے لیے نصاب کا حساب لگاتے وقت صدقۃ الفطر کے اموال میں سے قرضوں اور واجب الاداء رقوم کو منہا یعنی منفی کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر باقی مال نصاب کو پہنچتا ہو تو صدقۃ الفطر واجب ہوگا ورنہ تو نہیں۔
2⃣ اسی طرح اگر کسی اور کے ذمے قرضہ یا ادھار ہو اور اس کے ملنے کی امید ہو بھلے تاخیر ہی سے کیوں نہ ہو تو صدقۃ الفطر کے نصاب کا حساب لگاتے وقت اس کو بھی جمع کیا جائے گا۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
7 رمضان المبارک1441ھ/ یکم مئی 2020
03362579499
0 Comments