🌻 *قُربانی کی فضیلت، اہمیت اور ثبوت*
▪ *سلسلہ مسائلِ قربانی نمبر: 2️⃣*
📿 *قربانی کی حقیقت اور ثبوت:*
قربانی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کا قرب اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے۔
اسلام میں قربانی کے عمل کو بہت بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے،واضح رہے کہ یہ عمل قرآن وسنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ ذیل میں ذکر کی جانے والی آیات اور احادیث سے قربانی کی فضیلت، اہمیت، تاکید اور ثبوت بخوبی واضح ہوگا۔
*
قربانی پیش کرنے سے متعلق حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنا ایسی عظیم عبادت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امتِ محمدیہ تک ہر دین وملّت میں موجود رہی ہے، جیسا کہ قرآن کریم سورت الحج آیت 34میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُواْ اسْمَ اللّٰهِ عَلىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِّنۢ بَهِيْمَةِ الْأَنْعٰمِ.
▪ *ترجمہ:*
’’اور ہم نے ہر امت کے لیےقربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں۔
‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
چنانچہ حکیمُ الامّت مجدّدُ الملّت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب سے حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تب ہی سے ان جانوروں کا ذبح کرنا بحکمِ الہٰی جاری ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ ہابیل نے قربانی کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوئی ۔‘‘ (امداد الفتاویٰ)
اس سے یہ حقیقت تو سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنےکا عمل ہر امت کے لیے مقرر کیا گیا البتہ اس کے طریقےاور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے، انھی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امتِ محمدیہ علیٰ صَاحِبِہَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کو عید الاضحیٰ کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے۔ اس پوری تفصیل سے قربانی کے عمل کی اہمیت معلوم ہوجاتی ہے۔
📿 *قربانی اسلامی شعائر میں سے ہے:*
قرآن کریم کی رو سے قربانی اسلامی شعائر یعنی نشانیوں میں سے ہے، جس کے ذریعے اسلام کی شان وشوکت نمایاں ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
☀ سورتِ حج آیت 32، 36، 37:
ذٰلِكَ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ ۞ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَـكُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ لَـكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَـرَّؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَـكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۞ لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمْؕ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ ۞
▪ *ترجمہ:*
’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔۞ اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہوکر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔۞ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنادیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں انہیں خوشخبری سنا دو ۔۞‘‘
▪ *تفسیر:*
شعائر کے معنی ہیں: وہ علامتیں جن کو دیکھ کر کوئی دوسری چیز یاد آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں واجب قرار دی ہیں، اور خاص طور پر جن مقامات پر حج کی عبادت مقرر فرمائی ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر میں داخل ہیں، اور ان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
ان آیات سے بھی قربانی کے عمل کی اہمیت بخوبی معلوم ہوجاتی ہے۔
📿 *قربانی کرنے سے متعلق قرآنی حکم:*
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سورتِ کوثر آیت نمبر 2 میں قربانی کرنے کا حکم بھی دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
☀ سورتِ کوثر آیت 1، 2:
اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۞ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ۞
▪ *ترجمہ:*
’’(اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لیے نماز پڑھو، اور قربانی کرو۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ نمازِ عید ادا کیجیے اور قربانی کیجیے۔
☀ تفسیر قرطبی:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ:
وَقَالَ قَتَادَةُ وَعَطَاءٌ وَعِكْرِمَةُ: فَصَلِّ لِرَبِّكَ صَلَاةَ الْعِيدِ وَيَوْمَ النَّحْرِ، وَانْحَرْ نُسُكَكَ. وَقَالَ أَنَسٌ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَنْحَرُ ثُمَّ يُصَلِّي، فَأُمِرَ أَنْ يُصَلِّيَ ثُمَّ يَنْحَرُ.
📿 *قربانی والے دن قربانی سے بڑھ کر محبوب عمل کوئی نہیں!*
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
:’’ قربانی والے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدمی کا کوئی بھی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کُھروں کو لے کر آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں قبولیت کے مقام کو پالیتا ہے، اس لیے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔‘‘
☀ سنن الترمذی میں ہے:
1493- عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا۔
🌹 *فائدہ:* قیامت کے دن قربانی کے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھروں کو لانے کا مقصد اجر وثواب میں اضافہ ہے، جیسا کہ ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قربانی کیا کرو اور خوش دلی سے کیا کرو کیوں کہ جب مسلمان اپنی قربانی کا رخ قبلے کی طرف کرتا ہے تو اس کا خون، گوبر اور اون قیامت کے دن میزان میں نیکیوں کی صورت میں حاضر کیے جائیں گے۔‘‘
8167- عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ الشَّامِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «ضَحُّوا، وَطَيِّبُوا بِهَا أَنْفُسَكُمْ؛ فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ مُسْلِمٍ يُوَجِّهُ ضَحِيَّتَهُ إِلَى الْقِبْلَةِ إِلَّا كَانَ دَمُهَا، وَفَرَثُهَا، وَصَوْفُهَا حَسَنَاتٍ مُحْضَرَاتٍ فِي مِيزَانِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ».
ان دو احادیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں:
▪ قربانی والے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدمی کا کوئی بھی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔
▪ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں قبولیت کے مقام کو پہنچ جاتا ہے۔
▪ قیامت کے دن قربانی کے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھروں کو بھی لایا جائے گا جو کہ میزانِ عمل میں اجر وثواب میں اضافے کا سبب بنے گا۔
▪ قربانی کی یہ عبادت بوجھ سمجھ کر بے دلی کے ساتھ ادا کرنے کی بجائے خوشی خوشی ادا کرنی چاہیے، یہی عبادت کی خوبی ہے اور یہ بھی قربانی کی قبولیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ان احادیث سے بھی قربانی کی بڑی ہی فضیلت نمایاں ہوتی ہے۔
📿 *حضور اقدس ﷺ کے عمل مبارک سے قربانی کی اہمیت:*
1⃣ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی فرماتے تھے۔
☀ سنن الترمذی میں ہے:
1507- عَن ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي كُلَّ سَنَةٍ.
حضور اقدس ﷺ کا ہر سال قربانی کرنا قربانی کی اہمیت، فضیلت اور تاکید کے لیے کافی ہے۔
2️⃣ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ سیاہ اور سفید رنگت والے اور بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے، اور اپنے پاؤں کو ان کی گردن کے پاس رکھ لیا کرتےتھے اور اپنے ہاتھ سے ذبح فرماتے تھے۔
☀ صحیح بخاری میں ہے:
5564- عَنْ قَتَادَةَ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صَفْحَتِهِمَا وَيَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ.
اس حدیث سے جہاں قربانی کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔
3⃣ قربانی کے عمل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک وقت میں سو اونٹوں کی قربانی فرمائی، اورایک اور روایت میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے خود اپنے دستِ اقدس سے سو میں سے تریسٹھ اونٹوں کو ذبح فرمایا، جبکہ باقی کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1718- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ: حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يَقُولُ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ: أَهْدَى النَّبِيُّ ﷺ مِائَةَ بَدَنَةٍ فَأَمَرَنِي بِلُحُومِهَا فَقَسَمْتُهَا ثُمَّ أَمَرَنِي بِجِلَالِهَا فَقَسَمْتُهَا ثُمَّ بِجُلُودِهَا فَقَسَمْتُهَا.
☀ مسند احمد میں ہے:
2359- عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَهْدَى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِائَةَ بَدَنَةٍ نَحَرَ مِنْهَا ثَلَاثِينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ ثُمَّ أَمَرَ عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا بَقِيَ مِنْهَا وَقَالَ: اقْسِمْ لُحُومَهَا وَجِلَالَهَا وَجُلُودَهَا بَيْنَ النَّاسِ، وَلَا تُعْطِيَنَّ جَزَّارًا مِنْهَا شَيْئًا، وَخُذْ لَنَا مِنْ كُلِّ بَعِيرٍ حُذْيَةً مِنْ لَحْمٍ، ثُمَّ اجْعَلْهَا فِي قِدْرٍ وَاحِدَةٍ حَتَّى نَأْكُلَ مِنْ لَحْمِهَا وَنَحْسُوَ مِنْ مَرَقِهَا، فَفَعَلَ.
📿 *حضور اقدس ﷺ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا:*
حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی فرمائی، ذیل میں اس حوالے سے چند روایات ذکر کی جاتی ہیں:
1⃣ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے موٹے تازے سینگوں والے سیاہ وسفید رنگت والے دو خصی مینڈھے خریدتے، اُن میں سے ایک اپنے اُن امتیوں کی طرف سے قربان کرتے جنھوں نے اللہ کی توحید اور آپ کی تبلیغ کی گواہی دی، اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربان کرتے۔
☀ مسند احمد میں ہے :
25843- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ: فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ.
2️⃣ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذبح کے دن (یعنی قربانی کے دن) دو سینگوں والے خصی دنبے ذبح کرنے چاہے تو ان کو قبلہ رخ کیا اور پھریہ کلمات کہے:
إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ.
پھر فرمایا کہ: ’’اےاللہ! یہ قربانی تیری طرف سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لیے ہے، تو اس کو محمد اور اس کی امت کی جانب سے قبول فرما۔ ‘‘اس کے بعد آپ ﷺ نے انھیں ذبح فرمایا۔
☀ سنن ابی داود میں ہے:
2797- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: ذَبَحَ النَّبِىُّ ﷺ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ: «إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ»، ثُمَّ ذَبَحَ.
3⃣ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (دونوں دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کیے اور یوں فرمایا کہ:’’بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اے اللہ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میرى امت کے ہر اس فرد کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔‘‘
☀ مسند احمد میں ہے:
14837- عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو: أَخْبَرَنِي مَوْلَايَ الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ عِيدَ الْأَضْحَى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ فَقَالَ: «بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُمَّ إِنَّ هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي».
کس قدر خوش نصیب ہے یہ امتِ محمدیہ کہ سرکارِ دو عالَم حضور اقدس ﷺ ان کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام فرماتے تھے!! مذکورہ حدیث میں حضور اقدس ﷺ کا اپنی امت اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو قربانی کے ثواب میں شریک فرمالیتے یعنی ان کے لیے ایصالِ ثواب فرماتے، اس لیے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کرکے کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو اس کا ثواب پہنچانا یا کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا بھی درست ہے۔ اس کی مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی ان شاء اللہ۔
▪ حضور اقدس ﷺ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنے سے بھی قربانی کے عمل کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے۔
📿 *حضور اقدس ﷺ اور مسلمانوں کا اہتمامِ قربانی:*
ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ: حضور اقدس ﷺ نے بھی قربانی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی قربانی کی ہے۔ اُس شخص نے پھر پوچھا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تمہیں کچھ عقل ہے؟ حضور اقدس ﷺ نے بھی قربانی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی قربانی کی ہے۔
☀ سنن الترمذی میں ہے:
1506- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ فَقَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالمُسْلِمُونَ»، فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَتَعْقِلُ؟ ضَحَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالمُسْلِمُونَ».
📿 *احادیث میں قربانی کے احکام کا بیان:*
کئی احادیث میں قربانی سے متعلق احکام بیان فرمائے گئے ہیں، قربانی کے وجوب، نصاب، قربانی کے جانوروں اور دیگر امور سے متعلق مسائل بیان فرمائے گئے ہیں، یہ صورتحال بھی اس بات کی خبر دیتی ہے کہ قربانی کی اہمیت کس قدر ہے!
📿 *استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید:*
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’جس کے پاس وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘
☀ سنن ابن ماجہ میں ہے:
3123- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلا يَقْربَنَّ مُصَلَّانَا».
قربانی ترک کرنے پر وعید سے قربانی کی اہمیت اور تاکید بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔
📿 *کیا قربانی کے جانور پلِ صراط پر سواریاں ہوں گی؟*
ضمن میں اس غلطی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ عوام میں یہ حدیث مشہور ہے کہ قربانی کے جانوروں کو کھلا پلا کر خوب موٹا تازہ بناؤ کیوں کہ یہ پلِ صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی۔
❄ *تبصرہ:*
یہ حدیث بعض کے نزدیک نہایت ہی ضعیف ہےجبکہ بعض کے نزدیک تو ثابت ہی نہیں، اس لیے اس کو بیان کرنے یا اس کے مطابق اعتقاد رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
☀ کشف الخفاء میں ہے:
1794- «عظموا ضحاياكم، فإنها على الصراط مطاياكم» ذكره إمام الحرمين في «النهاية»،
ثم الغزالي في «الوسيط»، ثم الرافعي في «العزيز ». قال ابن الصلاح: هذا حديث غير معروف، ولا ثابت فيما علمناه.
☀ المقاصد الحسنۃ میں ہے:
108 حديث: «استفرهوا ضحاياكم فإنها مطاياكم على الصراط» أسنده الديلمي من طريق ابن المبارك عن يحيى بن عبيد الله عن أبيه عن أبي هريرة رفعه بهذا ويحيى ضعيف جدا، ووقع في «النهاية» لامام الحرمين ثم في «الوسيط» ثم في «العزيز»: «عظموا ضحاياكم فإنها على الصراط مطاياكم» وقال الأول: معناه أنها تكون مراكب للمضحين وقيل: إنها تسهل الجواز على الصراط، لكن قد قال ابن الصلاح: إن هذا الحديث غير معروف ولا ثابت فيما علمناه، وقال ابن العربي في «شرح الترمذي»: ليس في فضل الأضحية حديث صحيح، ومنها: قوله: «إنها مطاياكم إلى الجنة»03362579499
0 Comments