Subscribe Us

اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق بنیادی عقائد* ▪ *

*
🌻 *اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق  بنیادی عقائد*
▪ *سلسلہ دینی عقائد نمبر:* 7️⃣

📿 *اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق عقائد:*
اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر ایمان رکھنا فرض ہے اور ان کا انکار کرنا کفر ہے، اس لیے ذیل میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق بنیادی عقائد ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ہر مسلمان ان سے آگاہی حاصل کرکے اپنے ایمان کی حفاظت کرسکے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی مزید  عظمت اور محبت بھی اجاگر ہوسکے:
▪اللہ تعالیٰ خود بخود موجود ہے، وہ اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں۔
▪اللہ تعالیٰ واجِبُ الوُجود ہے، یعنی اس کا موجود ہونا ضروری ہے اور اس کا نہ ہونا ناممکن ہے۔
▪اللہ تعالیٰ ازل سے ہے، اس کی کوئی ابتدا نہیں، وہ ہمیشہ رہے گا، اس کی کوئی انتہا نہیں،  اس کو فنا نہیں۔
▪اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی ازل سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔
▪اللہ تعالیٰ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آسکتی۔
▪اللہ تعالیٰ کو کسی نے پیدا نہیں کیا اور نہ ہی اس سے کوئی پیدا ہوا ہے، بلکہ سبھی کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بیوی اور اولاد سے پاک ہے، وہ بھائی بہن اور اس جیسے تمام رشتوں سے پاک ہے۔
▪اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ ہر نقصان سے پاک ہے۔ ہر کمزوری اور عِجز  سے پاک ہے، کوئی چیز اس کو عاجز نہیں کرسکتی۔ وہ نیند، اونگھ، تھکاوٹ، غلطی، بھول  اور ظلم سے پاک ہے۔ وہ ہر قسم کی محتاجی سے پاک ہے۔
▪اللہ تعالیٰ کی حقیقت جاننے سے مخلوق عاجز ہے، اللہ کو اس کے صفات کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے۔ اللہ ہمارے وہم اور تصوارت میں آنے سے پاک ہے۔
▪اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نرالی ہے کہ اس جیسی ذات اور کوئی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
▪اللہ تعالیٰ زمانے سے پاک ہے،  زمانہ تو اسی کا پیدا کردہ ہے، وہ زمانے کا محتاج نہیں۔
▪اللہ تعالیٰ جہت سے پاک ہے۔
▪اللہ تعالیٰ مکان سے پاک ہے، مکان کو تو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے، وہ مکان سے پہلے بھی موجود تھا، وہ مکان کا محتاج نہیں۔ عرش اس کا مکان نہیں، اللہ کو عرش کی ضرورت بھی نہیں، وہ عرش سے پہلے بھی موجود تھا۔ استواء علی العرش سے متعلق تفصیل مستقل عنوان کے تحت آئے گی ان شاءاللہ۔
▪اللہ صَمَد ہے یعنی سب اسی کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔
▪اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا لیکن اس کو مخلوق کی ضرورت نہیں۔
▪اللہ تعالیٰ ہی موت دیتا ہے، وہی زندگی بخشتا ہے۔
▪اللہ تعالیٰ ہی صحت دیتا ہے اور وہی بیمار کرتا ہے۔
▪اللہ تعالیٰ کی تمام صفات مخلوق کی صفات سے جُدا اور بالاتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ ہر قسم کی مشابہت سے پاک ہے۔
▪عبادت کے لائق صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اللہ نے مخلوق کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے، لیکن اس کو مخلوق کی عبادت کی ضرورت نہیں، بلکہ عبادت کا فائدہ مخلوق ہی کو ملتا ہے۔
▪اگر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی فرمان بردار ہوجائے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اسی طرح اگر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہوجائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی، بلکہ اس نافرمانی اور اطاعت کا فائدہ مخلوق ہی کو ملتا ہے۔
▪عزت وذلت دینے والا اللہ ہی ہے، وہ جسے عزت دے اس کو کوئی ذلت نہیں دے سکتا، وہ جسے ذلت دے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا۔
▪ ہدایت دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔
▪اللہ تعالیٰ ہی گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور دعاؤں کو سننے والا ہے۔
▪اللہ تعالیٰ خوبیوں والا ہے، وہ کمال والا ہے، اس کی ہر صفت کمال کی ہے، اس کی اچھی اچھی اور پیاری پیاری صفات ہیں۔
▪اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں، وہ کسی کو کچھ عطا کرے تو اسی کا فضل وکرم ہے، اس کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔
▪وہ ایمان و توحید سے سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے، اسی لیے وہ مؤمن سے ذاتی محبت  اور دوستی رکھتا ہے، جبکہ کفر وشرک سے سب سے زیادہ ناراض ہوتا ہے، اس لیے وہ کافر اور مشرک سے ذاتی دشمنی اور نفرت رکھتا ہے۔

🌼 *اللہ تعالیٰ کی چند صفات کا تعارف*
📿 *توحیدِ باری تعالیٰ:*
اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں ایک ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، معبود صرف وہی ہے، عبادت صرف اسی کی کی جائے، دعائیں اور حاجتیں صرف اسی سے مانگی جائیں، سجدہ صرف اسی کو کیا جائے، مشکل کشا اور حاجت روا صرف اسی کو قرار دیا جائے، استعانت اور مدد اسی سے طلب کی جائے۔

📿 *رزاق اللہ ہی ہے:*
اللہ تعالیٰ رزاق ہے کہ سبھی مخلوقات کو وہی رزق دینے والا ہے، لیکن رزاق کہلانے میں وہ مخلوق کا محتاج نہیں، وہ مخلوق کو رزق دینے سے پہلے بھی رازق تھا۔ 

📿 *مؤثر حقیقی اللہ ہی ہے:*
ہر چیز کی خاصیت اور تاثیر پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے، وہی مؤثر حقیقی ہے، وہ جب چاہتا ہے اس چیز سے اس کی تاثیر چھین لیتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے لیے آگ سے جلانے کی تاثیر چھین لی تھی۔

📿 *اصل حاکمیت اور حقیقی بادشاہت اللہ ہی کی ہے:*
کائنات میں اصل حاکمیت ، اصل اختیار اور حقیقی بادشاہت اللہ ہی کی ہے، اس لیے اسی کو حقیقی حاکم تسلیم کرنا چاہیے،  اور ریاسی دستور اور حکومتی قوانین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی بالادستی اختیار کرنی چاہیے۔ 

📿 *حلال وحرام کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے:*
کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اصل اختیار اللہ ہی کے پاس ہے، اللہ کے علاوہ کسی نبی، ولی، امام یا عالم کے پاس یہ اختیار نہیں۔

📿 *صفتِ تخلیق:*
اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے، وہی ہر چیز کو وجود دینے والا ہے۔لیکن خالق کہلانے میں وہ مخلوق کی پیدائش کا محتاج نہیں، وہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے بھی خالق تھا۔

📿 *صفتِ ارادہ:*
1⃣ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ارادے سے ہوتا ہے، وہ اپنے ارادے اور اختیار سے جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا، وہ کچھ کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا، اس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
2⃣ اللہ تعالی کے تمام فیصلے اور تمام کام نہایت ہی بھلائی اور حکمت پر مبنی ہیں اگرچہ ہماری محدود سوچ اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے، اس کے کسی بھی فیصلے میں ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں ہے۔

📿 *صفتِ بصر:*
اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے اور ایسا زبردست دیکھتا ہے کہ ذرہ ذرہ اس کے سامنے ہے، ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں، ساری مخلوقات کو بیک وقت اور بیک لمحہ دیکھتا ہے، لیکن دیکھنے کی ایسی زبردست قدرت کے باوجود بھی وہ آنکھوں سے پاک ہے، دیکھنے کے لیے اس کو آنکھوں کی ضرورت نہیں، وہ آنکھوں کا محتاج نہیں۔ اس کو صفتِ بصر کہتے ہیں۔

📿 *صفتِ سمع:*
اللہ تعالیٰ سنتا ہے، اور سننے میں زبردست کمال رکھتا ہے کہ ساری مخلوقات کو بیک وقت سنتا ہے، ایک کو سننا اسے دوسرے سے غافل نہیں کرسکتا، سننے میں ایسا زبردست کمال رکھنے کے باوجود وہ کانوں سے پاک ہے، وہ سننے میں کانوں کا محتاج نہیں، یہ صفتِ سمع ہے۔

📿 *صفتِ کلام:*
اللہ تعالی متکلم ہیں، وہ کلام کرتے ہیں، وہ اپنے متکلم ہونے میں کسی سے تکلم کے محتاج نہیں، وہ ازل سے متکلم ہیں، وہ کلام کرنے مں حروف وکلمات کا محتاج نہیں، قرآن کریم سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم کو حروف اور کلمات کے ساتھ آراستہ کرکے اسے نازل کیا تاکہ بندے پڑھ سکیں اور سن سکیں۔ اللہ تعالی کلام کے لیے زبان کے محتاج نہیں اور نہ ہی ان کی مخلوق جیسی زبان ہے، وہ حقیقی متکلم ہونے کے باوجود بھی زبان سے پاک ہے۔

📿 *صفتِ قدرت:*
اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ذات ہے، کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں، وہ کسی چیز سے عاجز نہیں۔

📿 *فائدہ برائے اہلِ علم:*
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اللہ کی یہ قدرت ممکنات ہی سے تعلق رکھتی ہے کہ اللہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے، کیوں کہ محال تو کہتے ہی اسے ہے جو واقع ہو ہی نہ سکتا ہو، جو ہوسکتا ہے وہ تو ممکن ہوا کرتا ہے۔

📿 *صفتِ علم:*
اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا  کلی علم ہے، کائنات کی کوئی بات اور ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں، وہ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے، اس کو ہر چیز کا علم ازل ہی سے حاصل ہے۔

📿 *صفتِ معیّت:*
اللہ تعالی کی ایک صفت ’’صفتِ معیت‘‘ بھی ہے۔ معیت کا معنی ہے: ساتھ ہونا۔ معیتِ الہٰیہ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالی اپنے علم، سمع، بصر اور اِحاطہ کے اعتبار سے اپنی مخلوق اور بندوں کے ساتھ ہے، اس کو معیتِ عامہ کہا جاتا ہے۔ دوسری ’’معیتِ خاصہ‘‘ ہے جو خاص مؤمنین کے لیے ہے، اور اس معیت کے معنی بندوں کی نصرت، تائید اور حفاظت ہیں کہ وہ مؤمنین کی مدد اور حفاظت کرتا ہے اور ان سے خاص تعلق رکھتا ہے۔ اللہ کی معیت اور قرب مخلوق کی معیت اور قرب کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کی ایک خاص صفت ہے جو دیگر صفات کی طرح  مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے۔

☀ العقیدۃ الطحاویۃ میں ہے:
الْإِيمَانُ بِاللهِ تَعَالَى: نَقُولُ فِي تَوْحِيدِ اللهِ -مُعْتَقِدِينَ بِتَوْفِيقِ اللهِ- أَنَّ اللهَ وَاحِدٌ لَا شَرِيكَ لَهُ. وَلَا شَيْءَ مِثْلُهُ. وَلَا شَيْءَ يُعْجِزُهُ. وَلَا إِلَهَ غَيْرُهُ. قَدِيمٌ بِلَا ابْتِدَاءٍ، دَائِمٌ بِلَا انْتِهَاءٍ. لَا يَفْنَى وَلَا يَبِيدُ. وَلَا يَكُونُ إِلَّا مَا يُرِيدُ. لَا تَبْلُغُهُ الْأَوْهَامُ، وَلَا تُدْرِكُهُ الْأَفْهَامُ. وَلَا يُشْبِهُ الْأَنَامَ. حَيٌّ لَا يَمُوتُ، قَيُّومٌ لَا يَنَامُ. خَالِقٌ بِلَا حَاجَةٍ، رَازِقٌ بِلَا مُؤْنَةٍ. مُمِيتٌ بِلَا مَخَافَةٍ، بَاعِثٌ بِلَا مَشَقَّةٍ. مَا زَالَ بِصِفَاتِهِ قَدِيمًا قَبْلَ خَلْقِهِ، لَمْ يَزْدَدْ بِكَوْنِهِمْ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ قَبْلَهُمْ مِنْ صِفَتِهِ، وَكَمَا كَانَ بِصِفَاتِهِ أَزَلِيًّا كَذَلِكَ لَا يَزَالُ عَلَيْهَا أَبَدِيًّا. لَيْسَ بَعْدَ خَلْقِ الْخَلْقِ اسْتَفَادَ اسْمَ الْخَالِقِ، وَلَا بِإِحْدَاثِ الْبَرِيَّةِ اسْتَفَادَ اسْمَ الْبَارِي. لَهُ مَعْنَى الرُّبُوبِيَّةِ وَلَا مَرْبُوبَ، وَمَعْنَى الْخَالِقِ وَلَا مَخْلُوقَ. وَكَمَا أَنَّهُ مُحْيِي الْمَوْتَى بَعْدَمَا أَحْيَا اسْتَحَقَّ هَذَا الِاسْمَ قَبْلَ إِحْيَائِهِمْ، كَذَلِكَ اسْتَحَقَّ اسْمَ الْخَالِقِ قَبْلَ إِنْشَائِهِمْ. ذَلِكَ بِأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَكُلُّ شَيْءٍ إِلَيْهِ فَقِيرٌ، وَكُلُّ أَمْرٍ عَلَيْهِ يَسِيرٌ، لَا يَحْتَاجُ إِلَى شَيْءٍ خَلَقَ الْخَلْقَ بِعِلْمِهِ. وَقَدَّرَ لَهُمْ أَقْدَارًا. وَضَرَبَ لَهُمْ آجَالًا. وَلَمْ يَخْفَ عَلَيْهِ شَيْءٌ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُمْ، وَعَلِمَ مَا هُمْ عَامِلُونَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُمْ. وَأَمَرَهُمْ بِطَاعَتِهِ، وَنَهَاهُمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ. وَكُلُّ شَيْءٍ يَجْرِي بِتَقْدِيرِهِ وَمَشِيئَتِهِ، وَمَشِيئَتُهُ تَنْفُذُ، لَا مَشِيئَةَ لِلْعِبَادِ إِلَّا مَا شَاءَ لَهُمْ، فَمَا شَاءَ لَهُمْ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ. يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ، وَيَعْصِمُ وَيُعَافِي فَضْلًا، وَيُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ، وَيَخْذُلُ وَيَبْتَلِي عَدْلًا. وَكُلُّهُمْ يَتَقَلَّبُونَ فِي مَشِيئَتِهِ بَيْنَ فَضْلِهِ وَعَدْلِهِ. وَهُوَ مُتَعَالٍ عَنِ الْأَضْدَادِ وَالْأَنْدَادِ. لَا رَادَّ لِقَضَائِهِ، وَلَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ، وَلَا غَالِبَ لِأَمْرِهِ. آمَنَّا بِذَلِكَ كُلِّهِ، وَأَيْقَنَّا أَنَّ كُلًّا مِنْ عِنْدِهِ.

🌹 *وضاحت:*
زیرِ نظر عقائد کتبِ عقائد سے مأخوذ ہیں، جن میں خصوصیت کے ساتھ حضرت مفتی طاہر مسعود صاحب دام ظلہم کی کتاب ’’عقائد اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ قابلِ ذکر ہے، جزاہم اللہ خیرًا۔

Post a Comment

0 Comments